مولانا محمود اسد مدنی، جوجمعیت علمائے ہند کے صدر ہیں، نے جمعرات کوریاستی مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ کےو زیر بنڈی سنجے کمار کی جمعیت کے مدارس کو دہشت گردی کا مرکز کہنے کے بیان کی مذمت کی۔ جمعرات کو ایک تقریب کے دوران بنڈی سنجے کمار نے دعویٰ کیا تھا کہ متعدد مدارس طلبہ کوخطرناک صلاحیتوں سے لیس کر رہے ہیں اور الزام عائد کیا تھا کہ وہ طلبہ کو اے کے ۴۷؍ رائفلس کا استعمال کرنے کی ٹریننگ بھی دے رہے ہیںتلنگانہ بی جے پی کے سابق چیف نے ریاستی حکومت کے ان مدراس کو عطیہ کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔مولانا مدنی نے ان بیانات کو بے بنیاد اور وزارت داخلہ کی تذلیل قرار دیا۔ انہوں نے اسے جان بوجھ کر بغض اور اسلاموفوبیا کی تشہیر کی کوشش قرار دیا۔ مولانا نے بنڈی سنجے کمار کے بیانات کی سخت مذمت کرتے ہوئے اس پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ’’قومی امن و سلامتی ‘‘ کو خراب کرنے کی کوشش ہے۔مولانا محمود اسد مدنی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’یہ سخت پریشان کن ہے کہ ’’تفرقہ انگیز خیالات کا حامل شخص حکومت میں کلیدی عہدہ سنبھال رہا ہے۔ قبل ازیں کمار نے اقلیتی طبقے کو اپنی اشتعال انگیز تقاریر کا نشانہ بھی بنایا تھا۔‘‘ مولانا مدنی نے ہندوستان کے مدارس کے کردار کا دفاع کیا ، انہیں اسلامی ورثہ قرار دیا اور انہیں ہندوستان کے تنوع سے تعبیر کیا۔ انہوں نے تعلیم ، اخلاقی رہنمائی، اور بین المذاہب ہم آہنگی کے تئیں مدارس کی شراکت داری اور ہندوستان کی ثقافتی لیگسی میں مدارس کے مرکزی کردار کی نشاندہی کی۔
انہوں نے کہا کہ ’’۲؍ دہائیوں سے مدارس ملک میں مذہبی رواداری اور امن کے رہنما کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔‘‘ جمعیت کے صدرنے کمار کے مدراس کے دہشت گردی سے متعلقہ ہونے کے دعوؤں کو بھی مسترد کیا۔ انہوں نے مرکزی وزارت داخلہ سے و زیر کے ذریعے عوامی معافی کی مانگ کی اور متنبہ کیا کہ اس طرح کی بیان بازی قومی ہم آہنگی اور ہندوستان کے متنوع معاشرے کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔