لائیو لاء کے مطابق جمعرات کو سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کی اس عرضی کو خارج کر دیا جس میں اس نے عدالت سے بلقیس بانو معاملے کے ۱۱؍ مجرمین کی سزا معافی کے خلاف سخت ریمارک پرنظر ثانی کی گزارش کی تھی۔اس سے قبل ۸؍ جنوری کو عدالت نے گجرات حکومت کے ذریعے ۲۰۰۲ء کے مسلم کش فساد میں بلقیس بانو کی عصمت دری اوراس کے خاندان کے ۱۴؍ افراد کے قاتل ۱۱؍ مجرمین کو جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے معافی دے دی تھی اس کے خلاف سخت الفاظ میں تبصرہ کیا تھا۔ ۔فروری میں داخل کردہ اپنی عرضی میں گجرات حکومت نے کہا کہ سپریم کورٹ کا تبصرہ بلا جواز ہے اور مقدمے کے ریکارڈ کے منافی ہے، ساتھ ہی اس تبصرہ سے گجرات حکومت کی غیرجانبداری کو گہری ٹھیس پہنچی ہے۔
لائیو لاء کے مطابق جمعرات کو جسٹس بی وائے ناگارتنا اور جسٹس اجل بھویان نے اس معاملے کی سماعت کے دوران کہا کہ نظر ثانی کی یہ عرضی نا موافق ہے۔عدالت نے کہا کہ یہ تبصرہ تمام حقائق پر غور کرنے اور احتیاط برتنے کے بعد ہی کیا گیا تھا لہٰذا یہ درخواست نا موافق ہے۔ اور نظر ثانی کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔واضح رہے کہ اپنے جنوری کے حکم نامے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ۲۰۲۲ء کے معاملے میں معافی کا فیصلہ عدالت میں کئے گئے کاغذی ہیر پھیر کا نتیجہ تھا۔جس میں حقائق سے قصداً چشم پوشی کی گئی تھی۔عدالت کے مطابق ایک مجرم رادھے شیام نے حقائق کو چھپاکر اپنے حق میں فیصلہ حاصل کیا جو بقیہ مجرمین کی رہائی کا سبب بنا۔
گجرات حکومت کی یہ دلیل تھی کہ حکومت نے یہ معافی عدالتی احکام کے مطابق دی تھی، اور سپریم کورٹ کے تبصرے نے ریاست کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔اور اس تبصرہ کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا۔نـظر ثانی کی درخواست کے مطابق ریاست کو اختیارات کے غلط استعمال کاقصوروار قرار دینا ، اور اپنی حد سے تجاوزکرنے کا ذمہ دار ماننا مقدمے کے نقطہ نظر سے ایک واضح غلطی ہے۔