اترپردیش میں ایک بار پھر کھانے پینے کی تمام دکانوں، ڈھابوں، ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس پر مالک اورمنیجر کا نام لکھنے کا معاملہ زورپکڑسکتا ہے۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نےلکھنؤ میں اعلیٰ سطح کی ایک میٹنگ میں کھانے پینے کی اشیاء میں گندی چیزوں کی ملاوٹ کے واقعات پرتشویش کا اظہارکرتے ہوئے ٹھوس انتظامات کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات افسوسناک ہیں اور عام آدمی کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں اور ایسی مذموم حرکتوں کو ہر گز قبول نہیں کیا جا سکتا۔
میٹنگ میں وزیراعلی یوگی نے اتر پردیش میں کھانے پینے کی تمام دکانوں، ڈھابوں، ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس پر مالک، منیجر، آپریٹر، پروپرائٹر وغیرہ کا نام اور پتہ نمایاں طورپر لکھنے کولازمی بنانے کی ہدایت دی ہے۔ شیف ہو یا ویٹر، سب کو ماسک اور دستانے پہننے ہوں گے۔ ہوٹلس اور ریسٹورنٹس میں سی سی ٹی وی لگانا لازمی ہوگا۔ مالکان کو دکان اور ہوٹل وغیرہ پرلگے سی سی ٹی وی فوٹیج کو محفوظ رکھنا ہوگا اور ضرورت پڑنے پر اسے پولیس اورمقامی انتظامیہ کو فراہم کرایاجائے گا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے اس طرح کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کھانے پینے سے متعلق تمام اداروں کی مکمل جانچ اوراس میں کام کرنے والےملازمین کا پولیس ویریفکیشن کرانے کی بھی ہدایت دی ہے اور کہا کہ ریاست میں عوام کی صحت کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئےحسب ضرورت فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈز ایکٹ میں ترمیم بھی کی جائے۔
وزیراعلیٰ نے کھانے پینے کی اشیاء میں ’گندی چیزوں ‘ کی ملاوٹ کرنے والوں کیخلاف سخت ترین کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے اور کہا ہے کہ عوام کی صحت سے کسی بھی صورت میں کھلواڑ برداشت نہیں کیاجا سکتا۔ انہوں نے افسران سے کہا کہ مینوفیکچرنگ، اشیائے خوردونوش کی فروخت یا دیگر متعلقہ سرگرمیوں سے متعلق قوانین کو عملی طور پر ذہن میں رکھتے ہوئے مزید سخت بنایا جانا چاہئے اور قوانین کی خلاف ورزی پر فوری ایکشن لیا جائے۔ وزیراعلیٰ نے کہا ہےکہ فوڈ سیفٹی اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن، پولیس اور مقامی انتظامیہ کی مشترکہ ٹیم کے ذریعے ریاست گیر مہم چلاکر ان اداروں کے آپریٹرز اور وہاں کام کرنے والے تمام ملازمین کی تصدیق کی جانی چاہئے اوراس کارروائی کو جلد مکمل کیا جائے۔ یادرہے کہ رواں سال’ کانوڑ یاترا‘ کے دوران بھی کھانے پینے کی تمام دکانوں، ڈھابوں اورہوٹلوں نیز پھل اور سبزیوں کے ٹھیلوں پر وغیرہ پر مالکان اور نگراں کا نام لکھنے کافرمان جاری کیا گیا تھا مگر سماجی سطح پر اعتراضات اور عدالت کی مداخلت کے بعداس پر روک لگ گئی تھی۔ اب ایک بار پھر وزیراعلیٰ نے اس طرح کے احکامات دئے ہیں، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس پرکتنا عمل کیا جا سکتا ہے نیز قانونی اور سماجی سطح پر اس کا ردعمل کیا ہوگا؟