نئی دہلی: اترا کھنڈ کے رودرپور کی ساکنہ مسلم نرس تسلیم جہاں کے قتل کا معاملہ اب سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے ۔صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کے تعاون سے متوفیہ کی بیٹی اور بہن نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کرکے چیف جسٹس سے قتل کے اس مقدمہ کی سی بی آئی انکوائری اور متاثرین کو معاوضہ دیئے جانے کی درخواست کی ہے ۔جس کی سماعت جمعہ13 ستمبرہوگی۔جمعیۃعلماء ہند کی جاری کردہ ایک ریلیز کے مطابق اس اہم مقدمہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی والی تین رکنی بنچ13 ستمبر جمعہ کے دن کرے گی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشراء اس مقدمہ کی سماعت کریں گے ۔سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن کو سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن کے مشورہ سے ایڈوکیٹ صارم نوید اور ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے تیار کیا ہے جبکہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ سوگندھا آنندنے دائر کی ہے ۔پٹیشن میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایف آئی آر نمبر 406/2024رودر پور پولس اسٹیشن کی مرکزی تفتیشی ایجنسی سے آزادانہ تحقیقات کرائے نیز متوفیہ کی کمسن بچی کو معاوضہ دینے کے لئے ریاستی حکومت کو حکم جاری کرے ۔ عدالت سے قومی سطح پر میڈیکل اسٹاف کی حفاظت کے لئے قومی سطح پر گائیڈلائنس تیار کئے جانے کی بھی درخواست کی گئی ہے ۔عرضی کو متوفیہ کی کمسن بچی ضیاء ملک (بذریعہ نانا)اور بہن صاحبہ جہاں کے ذریعہ سپریم کورٹ میں داخل کیا ہے ۔پٹیشن میں یونین آف انڈیا، منسٹری آف چائلڈ اور وومن اور اسٹیٹ آف اتراکھنڈ کو فریق بنایا گیا ہے ۔ آئین ہند کے آرٹیکل 32 کے تحت داخل پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ 30 جولائی کو اسپتال سے واپس آتے ہوئے متوفیہ لاپتہ ہوگئی تھی جس کی رپورٹ پولس میں درج کرائی گئی لیکن پولس نے ان کی رپورٹ پر کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ 8 اگست کو اس وقت کارروائی شروع کی گئی جب ایک سڑا گلا انسانی ڈھانچہ بر آمد ہوا۔لاش کی شناخت اس کے پاس سے بر آمد موبائل کی وجہ سے ہوئی اور پھر ایک ملزم کی راجستھان سے گرفتاری بتائی گئی۔ پولس نے ایسے شخص کو گرفتار کرنے کااعلان کیا جو پہلے سے پولس تحویل میں تھا اور جو نشے کا عادی ہے ۔پٹیشن میں مزید تحریر کیا گیا کہ پولس نے ان کی شکایت پر کئی دنوں تک کارروائی نہیں کی اور انہیں پولس اسٹیشن کے درجنوں چکر لگانے پڑے ۔ پولس نے عوامی غصہ اور احتجاج کے بعد ایف آئی آر درج کی۔ابتک کی پولس کی کارروائی مشکوک ہے لہذا عدالت کو اس مقدمہ کی تفتیش مرکزی تفتیشی ایجنسی سے کرانا چاہئے تاکہ ہمیں انصاف مل سکے ۔پولس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں یہ کہیں درج نہیں کیا گیا ہے کہ انہیں متوفیہ کی لاش کا ڈھانچہ کیسے ملا جبکہ متوفیہ کے گھر والے متوفیہ کو ایک ہفتہ سے زائد عرصے سے اسی جگہ تلاش کررہے تھے جہاں سے پولس نے لاش ملنے کا دعوی کیا ہے ۔پٹیشن میں مزید تحریرہے کہ پوسٹ مارٹم رپوٹ بھی موت کس وجہ سے ہوئی واضح نہیں کرسکی ہے۔