یوپی کے مظفر نگر کے بعد قومی راجدھانی دہلی میں بھی مذہب کی بنیاد پر مسلم طلبہ کو نشانہ بنانے کا معاملہ سامنے آیاہے۔ سرکاری اسکول کی ایک ٹیچر نے مسلم طلبہ کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر نہ صرف قابل اعتراض رویہ اختیار کیا بلکہ ان کے مذہبی عقیدہ کو مجروح کیا اور غیر ملکی کہہ کر مخاطب کیا ۔
یہ معاملہ مشرقی دہلی کے گاندھی نگر اسمبلی حلقہ میں واقع کیلاش نگر کے سرودیہ بال ودیالیہ میں پیش آیا۔ اس کا بھی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے۔معاملہ کی اطلاع ملتے ہی والدین نے مقامی افراد اور مقامی لیڈر حسیب الحسن کے ساتھ مل کر اسکول کے باہر احتجاج کیا او ر ملزم ٹیچر کے خلاف سخت کارروائی کیلئے گاندھی نگر پولیس اسٹیشن میں تحریری شکایت دی جس کے بعد پولیس نے ایف آئی آر درج کرلی ہے ۔ خبر لکھے جانے تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے ۔
یہ معاملہ ۲۳؍ اگست ۲۰۲۳ء کا ہے۔ طلبہ کے مطابق چندریان – ۳؍ کی کامیاب لینڈنگ کے موقع پر اسکول کی ٹیچر ہیما گلاٹی نے مسلم طلبہ کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا۔ اسلام کے تعلق سے غلط سلط باتیں کیں اور کہا کہ’’ تم مسلمان، ہندوستانی نہیں ہو ،تم لوگوں نے جنگ آزادی میں کوئی تعاون نہیں دیا۔ تم لوگ جانواروں کو بے دردی سے جانوروں کو ذبح کر تے ہو۔‘‘
انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے ۹؍ جماعت کے طالب علم فرحان نے بتایا کہ’’ ٹیچر نے مقامات مقدسہ کے تعلق سے بھی نازیبا کلمات کہے۔‘‘ اس کے ساتھی طالب علم اشراق نے بھی اس کی تصدیق کی۔ ‘‘ فرحان کے والد محمد ہاشم نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہم اپنے بچوں کو اچھا انسان اور ان کے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے اسکول بھیجتے ہیں ، اگر اسکول میں اس طرح کی تعلیم دی جائے گی تو بچوں کے مستقبل کا کیا ہوگا۔‘‘ شاہدرہ کے ڈی سی پی روہت مینا نے نمائندہ انقلاب کو بتایا کہ ’’اسکول ٹیچر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور پولیس معاملہ کی تحقیقات کررہی ہے۔‘‘ سابق کونسلر حسیب الحسن نے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہاکہ ’’اساتذہ ہی یہ سب کرنے لگیں گے تو ہمارے ملک کا مستقبل کیا ہوگا۔‘‘ جمعیۃ علما ء صوبہ دہلی کے صدر مولانا عابد قاسمی نے بھی گہری تشویش کااظہار کرتے ہوئے ٹیچر کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ۔مولانا نے کہاکہ مظفر نگر کے معاملہ سے ابھی باہر نہیں آپائے تھے کہ اب دہلی میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آگیا جس کی ہم مذمت کرتے ہیں ۔
ایک طالب علم کی شکایت کے مطابق ٹیچر ہیما گلاٹی نے بدھ کو قابل اعتراض کلمات استعمال کئے۔ انہوں نے کعبہ اورقرآن کریم کے خلاف بھی توہین آمیز کلمات استعمال کئے تھے۔ شکایت کی ایک کاپی کے مطابق شکایت جمعہ کی شام کو درج کرائی گئی تھی۔ طلبہ کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے رد عمل اسکول میں اختلاف کی وجہ بن سکتے ہیں۔ انہوں نے ٹیچر کو برطرف کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ ایک خاتون جن کے ۲؍بچے اسی اسکول میںزیرتعلیم ہیں کہا کہ اگر ٹیچر کو سزا سے بچا لیا گیا تو دیگر کو بھی حوصلہ ملےگا۔ ان سے کہا جائے کہ وہ صرف پڑھائیں نہ کہ ان معاملات پر بحث کریں جن کے بارے میں انہیں کوئی علم نہیں ہے۔ ایسے اساتذہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو طلبہ کے درمیان تقسیم کریں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ٹیچر کو اسکول سے برطرف کیا جائےاور انہیں کسی بھی اسکول میں پڑھانے کی اجازت نہ دی جائے۔
اس تعلق سے مقامی ایم ایل اے اور سماجوادی پارٹی کے لیڈر انیل کمار باجپائی نے ٹیچر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سراسر غلط ہے۔ ٹیچر کی ذمہ داری طلبہ کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہوتا ہے۔ ٹیچر کسی بھی کمیونٹی اور مقدس جگہ کے خلاف نازیبا بیانات نہیں دے سکتے۔ ایسے لوگوں کو حراست میں لیاجانا چاہئے۔