یوپی کے مظفر نگر ضلع کے پرائیویٹ اسکول میںایک مسلم بچے کو ہندو بچوں سے پٹوانے کےواقعہ پر ملک بھر میں شدید غم وغصہ کی لہر ہے اور نفرت کے زہر میں ڈوبی ہوئی خاتون اسکول ٹیچر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سیاسی لیڈران ، سماجی کارکنان،فلمی ستارے اور مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ اہم شخصیات کے علاوہ عام لوگ بھی سوشل میڈیا پراس واقعہ پرشدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مذہبی منافرت کی فضاء کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔دوسری طرف دائیں بازو کے عناصراس واقعہ کا دفاع کرتے ہوئے اس کو معمول کی بات قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔
ٹیچر کے خلاف کیس درج
یہ معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہونے او ر اس پر پورے ملک سے شدید ردعمل سامنے آنے کے بعد انتظامیہ کو حرکت میں آنا پڑا۔ اس نے ٹیچر اور اسکول کی پرنسپل ترپتا تیاگی کے خلاف کیس درج کرلیا ہے۔ حالانکہ یہ کیس نہایت ہلکی دفعات کے تحت درج ہوا ہے جس میں پولیس کے سامنے پیش ہوئے بغیر ضمانت لی جاسکتی ہے۔ اسی وجہ سے یوپی حکومت اور مقامی انتظامیہ کے خلاف شدید غصہ پایا جارہا ہے کیوں کہ وہ معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ساتھ ہی بتایا جارہا ہے کہ نیہا اسکول جہاں یہ واقعہ ہوا ہے اسے انتظامیہ کی جانب سے نوٹس دیا گیا ہے اور جواب مانگا گیا ہے۔
زبردست سیاسی ردعمل
یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد جہاں مظفر نگر کا کھبا پور گائوں میڈیا کی نظروں میں آیا وہیں سیاسی پارٹیوں کے لیڈران نے بھی اس پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے بی جے پی اور آر ایس ایس کی نفرت کی سیاست کا نتیجہ قرار دیا ہے۔کانگریس نے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئےمطالبہ کیاکہ اسکول ٹیچر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ یہ ایک نظیر ثابت ہو اور کوئی بھی اس طرح کی حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور ہوجائے۔ پارٹی صدر ملکا رجن کھرگے نے کہا کہ یوپی کے ایک اسکول میں جس طرح سے ایک ٹیچر نے ایک بچے کی مذہبی امتیاز کی وجہ سے دوسرے بچوں کے ہاتھوں پٹائی کرائی ،یہ بی جے پی،آر ایس ایس کی نفرت سے بھری سیاست کا نتیجہ ہے۔ایسے واقعات سے عالمی سطح پر ہماری شبیہ خراب ہوتی ہے۔حکمراں جماعت کی فرقہ وارانہ سوچ کا زہر سماج میں اس قدر پھیل چکا ہے کہ ایک طرف ایک ٹیچر ترپتا تیاگی بچپن سے ہی مذہبی منافرت کا سبق پڑھا رہی ہے اور دوسری طرف سیکوریٹی پر مامورآر پی ایف کاجوان چیتن سنگھ مذہب کے نام پر بے گناہوں کی جان لینے پر آماہ ہوجاتا ہے۔
راہل گاندھی کی بی جے پی پر تنقید
راہل گاندھی نے بھی اس واقعہ پر سخت برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ معصوم بچوں کے ذہنوں میں امتیازی سلوک کا زہر بونا، اسکول جیسی مقدس جگہ کو نفرت کے بازار میں تبدیل کرنے جیسا ہے۔ ایک ٹیچر ملک کے لئے اس سے براکچھ نہیں کر سکتاکہ وہ نفرت کو فروغ دے۔ راہل نے کہا کہ یہ وہی کیروسین ہے جو بی جے پی نے پورے ملک میں تقسیم کیا ہے اور اب اس کی مدد سے ہندوستان کے کونے کونے کو آگ لگا ئی جارہی ہے۔
سماج وادی سربراہ سخت برہم
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں نفرت کے جو اسکول چلائے جا رہے ہیں اس کا پرنسپل کون ہے یہ سبھی کو معلوم ہے؟ ہندوستان کی جو تصویر پوری دنیا میں جا رہی ہے، کیا کوئی ایسی تصویر پر فخر محسوس کرتا ہے؟نفرت پھیلانے والے سکول کی پرنسپل کو شرم آنی چا ہئے اور اسے ملک سے معافی مانگنی چا ہئے۔نفرت کے اس کاروبار کو اب بند کرنا ہوگا۔
اویسی نےمسلم بچے کی ہمت بڑھائی
ایم آئی ایم سربراہ اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے اس واقعہ پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ مسلم بچے کے اہل خانہ سے فون پر گفتگو کی اور اس بچے کی ہمت بڑھائی اور اعلان کیا کہ وہ اس کی تعلیم کا مکمل خرچ برداشت کرنے کو تیار ہیں۔
اسد الدین اویسی نے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد یوگی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’کہاںہے آپ کا بلڈوزر اور ٹھوک دو کی پالیسی ؟‘‘ سنیچر کی صبح انھوںنے مظفر نگر ایم آئی ایم کے ضلع صدر کو متاثرہ بچے کےگھر بھیجا اوراسکے والد سے فون پر بات کی جس میں انہوںنے بچہ کی تعلیم کا تمام خرچ اٹھانے کی یقین دہانی کروائی۔ انہوںنے جلد ہی مظفر نگر آ کر اس سے ملاقات کا بھی وعدہ کیا ۔اویسی نے کہا کہ متاثرہ کے گھر والوںنے بچہ کو اسکول سے نکال لیا ہے اور والد نے تحریری طور پر کہا کہ اس معاملہ میں وہ کوئی کارروائی نہیں چاہتے کیونکہ انکو معلوم ہے کہ انصاف نہیں ملےگا ۔انھوںنے کہاکہ بچے کے گھر والے ماحول نہ خراب ہو اس کیلئے آگے کی کارروائی نہیں چاہتے ، لیکن اپنے بچے کیلئے انصاف کا مطالبہ کرنے سے کس طرح سے ماحول خراب ہو سکتا ہے؟ اس معاملہ میں حکومت مقدمہ درج کرکے اسکول ٹیچر کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ اس معاملے میں کئی صحافیوں نے بھی ٹویٹ کیا اور ملک میںمسلمانوں کے تعلق سے بڑھتی ہوئی نفرت پر تشویش کا اظہار کیا۔کئی سوشل میڈیا اور وہاٹس ایپ گروپ میں بھی اسی تعلق سے گفتگو ہو رہی ہے ۔ حالانکہ کانگریس نے الزام عائد کیا کہ یوگی حکومت نے ویڈیو فوری طور پر ہٹانے کی ہدایت دی ہے۔ دوسری طرف اس معاملے کی کلیدی ملزم ترپتا تیاگی نے این ڈی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے یہ صفائی پیش کی کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہے اس لئے اس نے دیگر طلباء کو مسلم بچے کو پیٹنے کو کہا تھا ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ التمش کے والدین نے ہی اس پر سختی کرنے اور تعلیم کے تعلق سے سوالات کرنے کو کہا تھا کیوں کہ وہ پڑھائی میں کمزور ہے۔ ترپتا تیاگی نے کہا کہ یہ بہت چھوٹی سی بات تھی جسے ویڈیو وائرل کرکے اتنا بڑا بنادیا گیا۔ اس پر سیاست ہو رہی ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر سوال کیا جارہاہے کہ آیا نیہا اسکول پر بھی بلڈوز چلے گاجہاں مذہبی منافرت کی وجہ سے ایک مسلم بچے کو ہندو بچوں سے پٹوایا گیا؟