آج سپریم کورٹ نے گجرات ہائی کورٹ پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی کورٹ کا سپریم کورٹ کےخلاف حکم جاری کرنا دستور کے خلاف ہے۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ گجرات کی عصمت دری کی ایک متاثرہ کے کیس سے جڑا ہوا ہے۔ متاثرہ نے سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ اسے حمل ضائع کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس معاملے میں گجرات ہائی کورٹ نے سنیچر کو حکم جاری کیا تھا جس پر سپریم کورٹ کا سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر پیر کو سماعت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ گجرات ہائی کورٹ نےعرضی گزار کو راحت دینے سے انکار کر دیا تھا جبکہ سپریم کورٹ نے اسے حمل ضائع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ سنیچر کو گجرات ہائی کورٹ کے حکم کی اطلاع ملنے کے بعد سپریم کورٹ کے جسٹس بی وی ناگرتھنا اور اجل بھویان کی بینچ نے کہا کہ ’’گجرات ہائی کورٹ میں کیا ہو رہا ہے؟ ملک کا کوئی بھی کورٹ سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کر سکتا۔ یہ دستور کے خلاف ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا جو گجرات حکومت کی نمائندگی کررہے ہیں، انہوں نے گجرات ہائی کورٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سنیچر کا حکم صرف ایک ’’کلریکل غلطی‘‘ کو درست کرنے کیلئے جاری کیا گیا ہے۔۔ یہ محض ایک غلط فہمی ہے۔ ریاستی حکومت کے طور پر ہم جج سے درخواست کریں گے کہ وہ یہ حکم واپس لے لیں۔ جسٹس بھویان نے یہ بھی کہا کہ ’’عصمت دری کی ایک متاثرہ کو آپ حمل ضائع کرنے کی اجازت کیوں نہیں دے سکتے؟‘‘
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے سنیچر کو گجرات ہائی کورٹ کی جانب سے عصمت دری کی متاثرہ کی سماعت پر فیصلہ کرنے میں تاخیر کرنے کو نشانہ بنایا تھا۔ اس کے بعد جسٹس ناگرتھنا اور اجل بھویان کی بینچ نے کہا تھا کہ وہ آج اس معاملے کی سماعت کریں گے۔ سپریم کورٹ نے سنیچر کو گجرات حکومت اور دیگر کو نوٹس بھی جاری کیا تھااور خاتون کی عرضی پران کی رائے طلب کی تھی۔ ۲۵؍ سالہ متاثرہ خاتون نے سپریم کورٹ کو کہا تھا کہ انہوں نے ۷؍ اگست کو گجرات ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اور دوسرے دن اس معاملے پر سماعت کی گئی تھی۔ ۸؍ اگست کو ہائی کورٹ نے متاثرہ کے میڈیکل ٹیسٹ اور ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا جس نے ۱۰؍ اگست کو اپنی رپورٹ داخل کی تھی۔ رپورٹ میں عرضی گزار کی کاؤنسل نے کہا تھا کہ حمل ختم کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نےنوٹ کیا کہ ۱۱؍ اگست کو ہائی کورٹ کے ریکارڈ میں رپورٹ جمع کر دی گئی تھی لیکن ’عجیب طور پر‘ یہ معاملہ ۱۲؍ دنوں بعد درج کیا گیا تھا۔ کیس کی حساسیت ظاہر کرتی ہے کہ اس میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہونی چاہئے تھی۔
بینچ نے زبانی طور پر کہا کہ ایسے معاملات پر ایمرجنسی میں سماعت ہو ایسا ضروری نہیں ہے لیکن ان پر غوروخوض کرنا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں، ایسے معاملے کو عام معاملہ سمجھ کر اور اس پر ڈھیلے ڈھالے طریقے سے شنوائی کرکے اسے رد نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں ایسی بات کہتے ہوئے شرمندگی ہورہی ہے۔
بینچ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ عرضی گزار کی کاؤنسل نے مطلع کیا تھا کہ اس کیس کو ہائی کورٹ نے ۱۷؍ اگست کو برخاست کر دیا تھا لیکن کوئی وجوہات نہیں بتائی تھی اور یہ حکم ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیا گیا تھاجس کے بعد عرضی گزار کی کاؤنسل نے کورٹ کو کہا تھا کہ متاثرہ جلد ہی حمل کے ۲۸؍ ویں مہینے میں داخل ہونے والی ہے اور یہ بھی کہا تھا کہ اس کی دوبارہ میڈیکل جانچ کی جائے۔ تازہ رپورٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے آج حمل ضائع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔