راجستھان کے الوَرمیں پھر ہجومی تشدد کا معاملہ سامنے آیا ہے جس میں ایک ۲۷؍ سالہ نوجوان کی موت ہوگئی جبکہ دیگر ۲؍ زخمی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس واردات میں محکمہ جنگلات کے افسران کے بھی ملوث ہونے کی بات سامنے آرہی ہے۔ الوَر ضلع کے بانسور تحصیل میں واقع رامپور کے جنگلات میں جمعہ کی شام ۳؍ مسلم نوجوانوں پر حملہ یہ الزام عائد کرکے کیاگیا کہ وہ جنگل سے غیر قانونی طور پر لکڑی کاٹ کر لے جارہے تھے۔
حملہ آور محکمہ جنگلات کی گاڑی میں سوار تھے
معلومات کے مطابق حملہ آور محکمہ ٔ جنگلات کی گاڑی میں سوار تھے جن کی تعداد ۸؍ سے ۱۰؍ یا اس سے زیادہ تھی۔ اس میں محکمہ جنگلات کے کم از کم ۴؍ اہلکاروں کے شامل ہونے کی اطلاع ہے۔ الور کے ہرسورہ پولیس اسٹیشن میں تعزیرات ہند کی۳۰۲،۱۴۷،۱۴۹،۳۲۳؍ اور ۳۴۱؍ کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ایف آئی آر میں شکایت کنندہ طیب خان نے بتایا کہ ۱۷؍ اگست کو میرے بیٹے وسیم نے رام پور (بانسور) سے لکڑی خریدی تھی جسے وہ شام کو لینے گیا تھا۔ اس کے دوست امیش نے بتایاکہ’’ ہم رات ۱۰؍بجے کے قریب لکڑیاں بھر رہے تھے۔اسی دوران ہمیں اطلاع ملی کہ محکمۂ جنگلات کے لوگ آرہے ہیں۔ اس کے بعد ہم گاڑی لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں شرپسندوں نے ہمیں گھیر لیا اور پٹائی شروع کردی۔‘‘
۱۰؍ افراد کو حراست میں لیاگیا
وسیم کی موت کے سلسلے میں ہرسورہ پولیس نے ۱۰؍افراد کو حراست میں لیا ہے جن میں محکمہ ٔ جنگلات کے ملازم بھی شامل ہیں۔ پولیس ٹیم ۴؍دیگر افراد کی تلاش میںمصروف ہے۔ تفصیلات کے مطابق وسیم پک اپ وین چلا رہا تھا، جس میں اس کے چچازاد بھائی آصف اور ایک دوست اظہر الدین بھی سوار تھے۔
لکڑی چوری کا الزام غلط
وسیم کے والد طیب خان نے پولیس میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں اس بات کی تردید کی ہے کہ وسیم جنگل سے غیر قانونی طور پر لکڑی کاٹ کر لارہاتھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے نے ایک مقامی تاجر سے مذکورہ لکڑیوں کادن میں سودا کیاتھا اور رات کو وہ پِک اپ وین میں انہیں لینے گیاتھا۔ الزام ہے کہ ان کی پک اپ وین کا ایک طرف جہاں محکمہ جنگلات کی گاڑی نے پیچھا کیا دوسری طرف سامنے سے جے سی بی کے ذریعہ نرنول گاؤں کے قریب راستہ روک دیاگیا۔ پھر انہیں گاڑی سے اترنے پر مجبور کرکے بری طرح پیٹا گیا۔
پولیس کے پہنچنے سے پہلے ملزمین فرار ہوگئے
نیمرانا کےایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جگرام مینا نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’نرول گاؤں کے قریب لڑائی کی اطلاع ملتے ہی ہرسورہ سے پولیس وہاں پہنچی ۔اسے سڑک پر ۳؍ افراد زخمی حالت میں ملے جن میں سے ایک کی حالات نازک تھی۔ حملہ آور پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی فرار ہوگئے تھے۔‘‘ ایڈیشن ایس پی کے مطابق ’’ملزمین کو اسپتال پہنچایا گیا جن میں سے ایک نے دم توڑ دیا۔
وسیم کے گھر پر صف ماتم
اس دردناک واردات کے بعد وسیم کے گھر پر صف ماتم بچھ گئی ہے۔ اس کی بہن نے میڈیا سے گفتگو کے دوران روتے ہوئے الزام لگایا کہ ان کے بھائی کو صرف اس لئے موت کے گھاٹ اتار دیاگیا کہ وہ مسلم تھا، ہندو ہوتا تو نہ مارا جاتا۔ ایک مقامی چینل سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ وسیم مزدوری کرتا تھا اوراس کے ۴؍ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔
متاثرین کی ہر مدد کی یقین دہانی
اس واردات پر اپنے ردعمل میں راجستھان کے وزیرپرتاپ کچھاریا واس نے اعلان کیا کہ حکومت متاثرہ نوجوان کے اہل خانہ کی ہر ممکن مدد کرے گی۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اگر پولیس ایکشن نہیں لے گی تو پولیس کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ ‘‘ اس سلسلے میں انہوں نے بی جے پی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جس نے الوَر کو جرائم کی راجدھانی قراردیتے ہوئے نظم ونسق کی صورتحال پر سوال اٹھایا ہے۔
پرتاپ کچھاریہ واس نے بی جےپی کی جانب سے سوال اٹھانے پر اُلٹا حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’بی جےپی نوح میں کیا کررہی ہے؟وہ آگ پورے میوات خطے میں پھیل گئی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق راجستھان میں نظم ونسق کی صورتحال یوپی، مدھیہ پردیش اور ہریانہ سے بہتر ہے۔ بی جےپی فالتو کی بات کرتی ہے۔‘‘ہجومی تشدد کے تازہ معاملہ پرلوگوں کا کہنا ہے کہ راجستھان کی گہلوت سرکارکے ذریعہ ناصر اور جنید کے قاتل مونو مانیسر کو گرفتار کرنے میں عدم دلچسپی کی وجہ سے شر پسندوں کے حوصلے بلند ہیں اور ان کیلئے مسلمانوں کا ہجومی تشددکے ذریعہ قتل کھیل بنتا جارہاہے۔لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گہلوت حکومت اس معاملہ پر سیاست کررہی ہے اور وہ آئندہ انتخابات کے پیش نظر مونو مانیسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اگر حکومت کی نیت درست ہوتی تو مونو مانیسر کب کا گرفتار کرلیا گیا ہوتا۔اگر اس کے خلاف سخت کارروائی ہوتی تو دیگر شر پسند عناصر میں بھی قانون کا خوف ہوتا۔