پیر کے دن راہل گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت بحال کردی گئی۔چار ماہ بعد راہل کی لوک سبھا میں واپسی سے صرف انہیں اپنا آئینی حق واپس نہیں ملا بلکہ ان کے پارلیمانی حلقہ وائناڈ(کیرالا) کے ان لاکھوں رائے دہندگان کے حقوق بھی دوبارہ بحال ہوگئے جنہوں نے انہیں ووٹ دے کر اپنا نمائندہ منتخب کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے جمعہ کو گجرات کی نچلی کورٹ کے فیصلے پر روک لگاتے ہوئے یہ نکتہ اجاگر بھی کیا کہ راہل گاندھی کو دو سال کی سزا سنائے جانے سے صرف ان کی نہیں بلکہ ان کے ووٹروں کی بھی حق تلفی ہوئی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ نچلی عدالت اور گجرات ہائی کورٹ نے سیکڑوں صفحات سیاہ کردیئے لیکن وہ’’ وجہ‘‘ بتانے کی زحمت نہیں کی جس کی بنیاد پر راہل کو ’’زیادہ سے زیادہ سزا‘‘ کا مستحق قرار دیا گیا۔ اگر راہل کی سزا دو سال سے ایک دن بھی کم ہوتی تو ان کی رکنیت نہیں جاتی۔ راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے دعویٰ کیا کہ ہتک عزت کا مقدمہ راہل کو پارلیمنٹ سے باہر رکھنے کی بی جے پی کی سازش تھی جو رکنیت کی بحالی سے ناکام ہوگئی۔ بی جے پی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں حزب اختلاف کی موجودگی کتنی اہم ہے۔حکومت کے کام پر نظر رکھنا، اس کی پالیسیوں اور فیصلوں پر تنقید کرنااور حکومت سے سوال کرنا اپوزیشن کے فرائض بھی ہیں اور ذمہ داری بھی۔ پنڈت نہرو حزب اختلاف کا احترام کرتے تھے اور انہیں حریف نہیں بلکہ قوم کی تعمیر میں برابر کا شراکت دار تسلیم کرتے تھے۔نہروکاخیال تھا کہ ایک مضبوط اور چوکس اپوزیشن کی عدم موجودگی در اصل جمہوریت کی عدم موجودگی کا ثبوت ہے۔
لیکن پچھلے نو سال میں مودی حکومت کے رویے کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حزب اختلاف کی موجودگی اسے کانٹوں کی طرح کھٹکتی ہے۔ مودی جی نے ۲۰۱۴ء میں اقتدار میں آنے کے بعد جب ’’کانگریس مکت بھارت‘‘کا اعلان کیا اسی وقت یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ جمہوریت میں ان کا کتنا یقین ہے۔ چند برسوں میں صرف کانگریس ہی نہیں بلکہ دیگر پارٹیوں کے منتخب اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی کو توڑکربی جے پی نے واضح کردیا ہے کہ اس کی نگاہ میں ملک کے سیاسی نظام میں اپوزیشن کا کیا مقام ہے۔ بی جے پی کا بس چلے تو وہ بھارت کو محض کانگریس مکت ہی نہیں بلکہ اپوزیشن مکت بناڈالے۔
بی جے پی پچھلے نو سال سے کانگریس اور اس کی قیادت کے خلاف ایک جارحانہ مہم چلارہی ہے۔ اپنے آئی ٹی سیل اور درباری میڈیا کے تعاون سے اس نے ملک کے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ کانگریس ہندو ؤں کی بہی خواہ نہیں ہے اور راہل گاندھی ایک ناپختہ ذہن، ناتجربہ کار اور غیر سنجیدہ سیاسی رہنما ہیں۔یہی نہیں پچھلے سال ۶۰؍ گھنٹوں تک راہل کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)کی پوچھ گچھ کی ذہنی اذیت سے بھی گزرنا پڑا لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں ہوئی۔ وہ ثابت قدمی سے مودی حکومت کی’’ عوام مخالف پالیسیوں ‘‘ کے خلاف آوازبلند کرتے رہے۔ ملک میں تیزی سے بڑھتی مذہبی منافرت، عدم رواداری اور سماجی انتشار کو ختم کرنے اور اخوت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے راہل پچھلے ستمبر میں ۴۰۰۰؍کلو میٹر کی پدیاترا پر نکل پڑے۔تقریباً پانچ ماہ تک چلی ان کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کو ملی عوامی حمایت سے یہ حقیقت ظاہر ہوگئی کہ بی جے پی کی تقسیم اور تفریق کی سیاست کے باوجود ملک کے عوام کی اکثریت آپسی بھائی چارہ اور پر امن بقائے باہمی میں یقین رکھتی ہے۔ مئی میں این ڈی ٹی وی اور سی ایس ڈی ایس کے ذریعہ کئے گئے سروے سے پتہ چلا کہ گرچہ بی جے پی کی حمایت میں کمی نہیں ہوئی ہے تاہم کانگریس کے ووٹ شیئر میں ۲۰۱۹ء کے مقابلے میں ۱۰؍فیصد کا اور راہل گاندھی کی مقبولیت میں ۱۵؍فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
اڈانی گروپ کے گھوٹالے پر ہنڈن برگ کی دھماکہ خیز رپورٹ کی بنیاد پر جب راہل گاندھی نے وزیر اعظم سے ایسے سوال کرنا شروع کردیئے جن کے جواب ان کے پاس نہیں تھے تب ان کی آواز کچلنے کیلئے طرح طرح کے حربے اپنائے گئے۔ راہل نے لندن دورے کے موقع پر بھار ت میں جمہوریت پر منڈلاتے خطرے کے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کیا توبی جے پی نے اسے بہانہ بناکر پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن میں راہل کو بولنے نہیں دیا۔ اپوزیشن کے پرزور مطالبوں کے باوجود وزیر اعظم نے اڈانی ایشوپر ٹھیک اسی طرح مکمل خاموشی اختیار کرلی جیسے انہوں نے اس وقت منی پور کے سلگتے موضوع پر اختیار کررکھی ہے۔اسی دوران چار سال قبل کی گئی ایک انتخابی تقریرپر ہتک عزت کے مقدمے میں گجرات کی ایک عدالت نے راہل کو مجرم قرار دے کر دو سال کی سزا سنادی جس کے باعث آناً فاناً لوک سبھا کی ان کی رکنیت ختم کردی گئی، اگلے آٹھ سال تک ان کے الیکشن لڑنے پر پابندی لگادی گئی اور ان کے سر سے چھت بھی چھین لی گئی۔ بی جے پی لیڈروں کی وہ انتخابی تقریریں تو آپ کو یاد ہوں گی جن میں انہوں نے نہ صرف اپنے مخالفین بلکہ شہریوں کے ایک طبقے کے خلاف کیا کیا زہر اگلا تھا، کیسے سنگین الزام لگائے تھے اورتشدد کی کھلی دھمکی دی تھی۔ ان کوکسی عدالت نے کوئی سزا نہیں دی۔ دوسری جانب کانگریس کے سابق صدر کو ایک بے ضرر سی بات کہنے کے پاداش میں اتنی بڑی سزا کا مستحق سمجھا گیا۔
بہرحال عدالت عظمیٰ کی مداخلت سے راہل لوک سبھا میں واپس پہنچ گئے ہیں اوروہ مودی حکومت کے خلاف مجوزہ تحریک عدم اعتماد پر ڈیبیٹ میں حصہ بھی لیں گے۔کچھ تجزیہ نگار وں کا خیال ہے کہ راہل گاندھی کی رکنیت کی بحالی سے کانگریس پارٹی کے ہاتھ مضبوط ہوں گے لیکن اس سے نوزائیدہ اپوزیشن اتحاد’’انڈیا‘‘ کمزور ہوسکتا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ کانگریس قیادت اگلے لوک سبھا انتخابات میں راہل گاندھی کو وزارت عظمیٰ کے دعوے دار کے طور پر پیش کرے گی اور اس اقدام سے’’ انڈیا‘‘ میں دراڑپڑ سکتی ہے کیونکہ اپوزیشن اتحاد میں ایک جانب بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی تو دوسری جانب ان کے بہار کے ہم منصب نتیش کمار کی نظریں بھی راج سنگھاسن پر جمی ہوئی ہیں۔ لیکن اس کالم نویس کا خیال ہے کہ کانگریس قیادت اس طرح کی غلطی کا ارتکاب ہر گز نہیں کرے گی۔ ویسے بھی جولائی میں بنگلور میں ہوئے ۲۶؍ پارٹیوں کے اجلاس کے بعد کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے یہ واضح کردیا تھا کہ کانگریس کواقتدار یا وزیر اعظم کی کرسی میں کوئی دلچسپی نہیںہے بلکہ ان کی پارٹی آئین، جمہوریت، سیکولرزم اور سماجی انصاف کے تحفظ کیلئے کوشاں ہے۔رہی راہل کی پارلیمنٹ میں واپسی کی بات تو اس سے صرف کانگریس کے ہی نہیں بلکہ’’ انڈیا‘‘کے ہاتھ بھی مضبوط ہوں گے۔