ہریانہ میں یاترا کے دوران شر پسند کی وجہ سے پیر کو پھوٹ پڑنے والے تشدد پر ۵؍ دن گزر جانے کے بعد جمعہ کو بھی ریاستی حکومت قابو نہیں پاسکی ہے۔اس بیچ مسلمانوں نے شرپسندوں کے حملوں کے سا تھ ہی حکومت کے عتاب کا شکار ہونے کی شکایت کی ہے جس نے ’’روہنگیا‘‘ اور فساد میں ملوث قرار دیتے ہوئے غریب مسلم بستی پر بلڈوزر چلادیاہے۔ یہ کارروائی تاوڑو علاقہ میں کی گئی جس میں سیکڑوں جھوپڑوں کو اکھاڑ دیاگیا۔
دوسری جانب شرپسند عناصر کھل کھیلنے میں مصروف ہیں۔فساد متاثرہ علاقوں میں آتشزنی، توڑ پھوڑ اور مار پیٹ کے وارداتیں بلا تھمے جاری ہیں۔ جمعہ کو فرید آباد اور ریواڑی میں بھی شرپسندوںنے پتھراؤ اور اشتعال انگیزی نعرے بازی کی۔ نوح میں کرفیو جاری ہے۔جمعہ کو کرفیو میں ۳؍ گھنٹے کی ڈھیل دی گئی۔
پولیس نے اب تک ۹۳؍ ایف آئی آر درج کرکے ۱۷۶ ؍ افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ ۹۰؍ کو تحویل میں لے کر پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔ اقلیتی فرقے کا الزام ہے کہ گرفتار شدگان میں اکثریت اقلیتی نوجوانوں کی ہے۔ ہریانہ میں ۳۱؍ جولائی کو حالات اس وقت خراب ہوئے تھے جب نوح میں ایک مذہبی یاترا میں اشتعال انگیز نعرہ بازی کے بعد حملہ کا الزام عائد ہوا ۔ اس کے بعد ۴؍ دنوں سے مختلف علاقوں میں اقلیتی طبقہ پر حملے اور یکطرفہ گرفتاریاں کی جاری ہیں۔ الزام ہے کہ جن کے گھر وں اور دکانوں کو نذر آتش کیاگیا، جو گھر سے بے گھر ہوئے ،وہی اب گرفتار بھی ہو رہے ہیں۔
جمعہ کو پانچویں روز جیل موڑ اور پٹودی میں شر پسندوں نے کئی دکانوں کو آگ کے حوالے کر دیا۔ شرپسند اب منہ پر کپڑا باندھ کر مجرمانہ وارداتوں کو انجام دے رہے ہیں تاکہ اگر کوئی ویڈیو بھی بنا لے تو ان کی شناخت نہ ہوسکے۔ نوح کے ساتھ ساتھ بھوڑاکلاں،ٹوڈا پور ، پٹودی،منڈی وغیرہ علاقہ بند رہے کیونکہ یہاں شرپسندوںنے احتجاج کیا ہے۔ سارن تھانہ علاقہ میں ریہڑی پٹری اور نائی کا کام کرنے والے غریب مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہاہے۔ شرپسندوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو کام نہیں کرنے دیں گے۔ پولیس بھی تب پہنچتی ہے جب شر پسنداپنا کام کرچکے ہوتے ہیں۔ ویسے وزیر اعلیٰ کھٹر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہر شخص کا تحفظ ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔ بادشاہ پور میں بھی ایک دکان نذر آتش کی گئی۔