دہلی پولیس نے کہا کہ’’ہریانہ کے کچھ علاقوں میں تشدد پھوٹ پڑنے کی وجہ سے نئی دہلی کے کچھ حساس علاقوں میں بڑے پیمانے پر سیکوریٹی انتظامات کئے گئے ہیں۔ ‘‘ ہریانہ میں تشدد کی وجہ سے بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے کچھ کارکنان نے نئی دہلی کے کچھ علاقوں میں احتجاج کیا جس کی وجہ سے ٹریفک نظام متاثرہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نرمان وہار میٹرو اسٹیشن کے قریب وشو ہندو پریشد کے کچھ کارکنان ہنومان چالیسا پڑھ رہے ہیں۔ بعد ازیں انہوں نے وکاس مارگ کو بلاک کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے انہیں وہاں سے ہٹانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ اس ضمن میں دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ’’ ہریانہ کے کچھ علاقوں میں پھوٹ پڑنے والے تشدد کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی دہلی کے حساس علاقوں میں بڑے پیمانے پر سیکوریٹی انتظامات کئے گئے ہیں اور جہاں ضرورت ہے وہاں اضافی پولیس فورس بھی تعینات کی گئی ہیں۔ اگرکسی نے دہلی کے حفاظتی اقدامات کو کوئی نقصان پہنچانے یا فرقہ وارانہ ہم آہنگی پھیلانے کی کوشش کی تواس کے ساتھ سختی سے نپٹا جائے گا۔حساس علاقوں میں پولیس نے گشت بڑھایا ہے اوپر امن کمیٹیوں کے ساتھ میٹنگیں بھی منعقد کر رہی ہے ۔ علاوہ ازیں پولیس سوشل میڈیا پر بھی نظر رکھ رہی ہے۔ سرحد پر سے گاڑیوں کی تلاشی لی جارہی ہے۔ حفاظتی مقاصد کیلئے ڈرون کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ پولیس کچھ علاقوں میں پیدل گشت کر رہی ہے اور سینئر افسران مقامی افراد سے بات چیت بھی کر رہے ہیں۔‘‘
اطلاع دی جا رہی ہے کہ شمال مشرقی ضلع میں بجرنگ دل کے کچھ حامیوں نے احتجاج کیا اور جے شری رام کے نعرے لگائے۔پولیس نے بریکیٹ کے ذریعے انہیں قابو کیا۔ اس ضمن میں سینئرپولیس آفیسر نے کہا کہ ’’ ضلع میں اس مقام پر کافی حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں اور اب حالات درست ہیں۔‘‘سواتی مالیوال نےٹویٹ کے ذریعے دعویٰ کیا ہے کہ ’’ دہلی کے نانگلوئی پولیس تھانہ کےباہر’’ سڑکوںپر خون بہایا جائے گا ‘‘ کے نعرے لگائے گئے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے اپنے ٹویٹ کے ساتھ ویڈیو پوسٹ کیا اور دعویٰ کیا کہ ’’ یہ کلپ پیر سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اب تک منی پور اور ہریانہ تشدد کا شکار رہے ہیں، تو کیا اب دہلی کو بھی تشدد کا شکار بننے دیا جائے؟اورپولیس ایک طرف یہ کہتی ہے کہ اگرکسی نےکچھ غلط کیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔یہ ویڈیو کل سے وائرل ہے لیکن کیا پولیس نے اس ویڈیو کو چیک کیا ہے ؟ اور اگر یہ ویڈیو درست ہے تو اب تک کیوں ان افراد کو گرفتار نہیں کیا گیا ؟‘‘ واضح رہے کہ ہریانہ میں تشدد کی وجہ سے اب تک ۶؍ افرادکی موت ہو چکی ہے اور ۱۱۶؍ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ۔