الٰہ آباد ہائی کورٹ نے گیان واپی مسجد کمپلیکس کے سائنسی سروے پر۳؍ اگست تک کیلئے روک لگادی ہے۔ عدالت میںانجمن انتظامیہ مساجد کی عرضی پر جمعرات کو بحث مکمل ہوگئی ہے اورچیف جسٹس کی یک رکنی بنچ نےفیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔اب ۳؍ اگست کو وہ فیصلہ سنائیں گے کہ سروے ہوگا یا نہیں۔مسلم فریق نے آج( بروزجمعرات) بھی سروے کی پرزور مخالفت کی اور اسے پلیسزآف ورشپ ایکٹ کے عین منافی بتایا۔ساتھ ہی، کیس کی ترجیح پہلے طے کئے جانے کی بات کہی۔ انجمن نے یہ سوال اٹھایا کہ جب مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے پھر سروے کے بارے میں کیسے فیصلہ ہوسکتا ہے؟
انجمن نے یہ بھی دُہرایا کہ مخالف فریق کو یہ اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ وہ ثبوت اکٹھا کرنے کیلئےکورٹ یا اے ایس آئی کا استعمال کرے۔حالانکہ فریق مخالف سروے کی مانگ پر بضد رہے۔ وہیں، اے ایس آئی کی اس کیس میں حیثیت پر جب جج نے سوال کیا تو ادارہ کے نمائندہ نے بتایا کہ قومی حیثیت کےآثار قدیمہ کے درجے والی عمارتوں کی نگرانی اور تحفظ اس کی ذمہ داری ہے جبکہ سرکار کی پیروی کررہے ایڈوکیٹ جنرل نے کورٹ کو بھروسہ دلایا کہ سروے ہوگا یا نہیں یا کورٹ کو طے کرنا ہے، حکومت کی ذمہ داری لااینڈ آرڈر کی برقراری ہے جس کیلئےمناسب انتظامات کئے جارہے ہیں۔وارانسی واقع ضلع عدالت کے اس حکم کے خلاف دائر کردہ عرضی پر الٰہ آباد ہائی کورٹ میں سماعت مکمل ہوگئی جو انجمن انتظامیہ مساجد نے دائر کی تھی۔ یہ عرضی ضلع عدالت کے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے دائر کی گئی تھی جس میں مسجد کمپلیکس کے سائنسی سروے کا حکم دیا گیا تھا۔۲۵؍جولائی کو عدالت عالیہ میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر دائر اس عرضی میں انجمن نے سروے کے حکم پر سوالات اٹھائے ہیں۔دوران بحث سینئرا یڈوکیٹ سید فرمان نقوی نے اسے پلیسز آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ءکی صریح خلاف ورزی اور عد التی اصول و ضوابط کے عین منافی بتاتے ہوئے ضلع عدالت کی منشا پر بھی سوال کھڑا کیا ہے۔آج بھی انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تو کیس کے میرٹ پر ہی فیصلہ باقی ہے، جو عدالت عظمیٰ کو کرنا ہے، پھر ضلع عدالت سروے کا حکم کیسے دے سکتی ہے؟ سینئر وکیل نے پلیسز آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ءکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے سیکشن ۳؍میں صاف کہا گیا ہے کہ مذہبی عبادتگاہوں کی ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ءسے قبل کی مالکانہ حیثیت پر سوال نہیں کھڑا کیا جاسکتا؟
حالانکہ آج بھی ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین نے بابری مسجد – رام مندر کے سروے کی دلیل دیتے ہوئے گیان واپی میں وہی فارمولہ اپنائے جانےپر زور دیا۔تاہم انجمن کے وکیل نے جواب دیا کہ ایودھیا کیس میں سروے کا حکم ثبوت اکٹھا کرلئے جانے، انہیں عدالت میں پیش کئے جانے کے بعد عدالت نے دیا تھا، یہاں تو ثبوت اکٹھا کرنے کیلئےیہ طریقہ اپنایا جارہا ہے، جس کی کوئی قانونی نظیر نہیں ملتی۔سید فرمان نقوی نے کہا کہ کورٹ ایک فریق کو ثبوت اکٹھا کرنے کیلئےمحکمہ آثار قدیمہ کے بلاجواز استعمال کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟مسلسل تیسرے روز جاری سماعت کی شروعات عرضی گزار راکھی سنگھ کے وکیل سوربھ تیواری نے کی اوردعویٰ کیا کہ ان کے پاس کافی ثبوت ہیں جن سے یہ صاف ہوجائے گا کہ گیان واپی کی تعمیر مندر توڑکر کی گئی تھی۔سوربھ تیواری نے کچھ تصاویر بھی دکھانے کی بات کہی جسے چیف جسٹس پریتنکر دیواکر نے دیکھنے سے صاف منع کردیا۔ انہوں نے کہا کہ صحیح وقت اور پلیٹ فارم پر یہ دکھائیں، یہاں ضرورت نہیں۔جسٹس دیواکر نے کورٹ میں موجود اےایس آئی کے ایڈیشنل ڈائریکٹرآلوک تیواری سے اس کیس میں ادارہ کی حیثیت پوچھی تو ان کا جواب تھا کہ قومی اہمیت کی حامل آثار قدیمہ کی عمارتوں کی نگرانی اور تحفظ اس کی ذمہ داری ہے۔وہ اس کیس میں فریق نہیں۔ تاہم، سروے کی ذمہ داری اس کی ہوگی، جس کے لئے جی پی آر تکنیک اپنائی جائے گی ۔ جج نے وہاں موجود ریاستی ایڈوکیٹ جنرل اجے کمار مشراکو ان خدشات کو سنجیدگی سے لینے کی ہدایت دی اور فیصلہ محفوظ کرلیا ۔