پندرہ اپریل کو خاموش جلوس کے تعلق سے جن اداروں کے ذمہ داران نے اجازت کیلئے خط دیا تھا ، انہیں پولیس ن ے۱۴۹؍ کا نوٹس دیا ہے۔ اسی طرح رام نومی کے جلوس میں ہنگامہ آرائی کے ملزمین پرکارروائی کیلئے بھی پولیس نے اپنی دلیل دی ہے۔
اس تعلق سےانجمن جامع مسجد کےصدر اجمل حسین خان نےکہاکہ’’ پولیس کا رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ جب سبھی دھرم کے لوگ شانتی جلوس نکالناچاہتے ہیں اوراس کیلئے ان کی جانب سے پولیس کولیٹر دیا جارہا ہے تو اسے قبول کرنے کےبجائے شانتی جلوس نکالنےوالو ںکو ہی ۱۴۹؍ کا نوٹس دیا جارہا ہے۔ ہمیں بھی نوٹس دیا گیا ہے۔اگرپولیس نے ہماری بات پرتوجہ دی ہوتی ، رام نومی سے پہلے دیا گیا ہمارا لیٹر قبول کیا ہوتا اور الرٹ ہوگئی ہوتی تو آج جو کچھ کیا جارہاہے اور پولیس جودلیل پیش کررہی ہے ،اس کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔ مگراس وقت تو ہم سے ہی یہ پوچھا جارہا تھا کہ باہر سےآنے والوں کےتعلق سے آپ نےکیوں لکھا ہے ؟ اس لئے پولیس کا یہ طریقہ ہرگزمناسب نہیںہے ۔اس سے صاف ہوتا ہے کہ پولیس جان بوجھ کرمسلم نوجوانوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے اوران کوپھنسا رہی ہے۔‘‘
رام نومی کے جلوس کے دوران ہنگامہ آرائی کے ملزمین پریکطرفہ کارروائی کے لئے پولیس کی اپنی دلیل ہے ۔ کی گئی کارروائی کے لئے پولیس نے یہ جوازپیش کیا کہ چپل پھینکنے والوں پر کارروائی نہیں ہوگی توکیا جن پرچپل پھینکا گیا ہے ، ان پرہوگی؟ جہاں تک باہر سے آنے والوں کاسوال ہے تو کیا مسلمانوں کے جلوس اورپروگراموں میںباہر سے لوگ نہیں آتے ہیں؟ اگرایسا ہی ہوگا تو پھرہمیںناکہ بندی کرکے آدھار کارڈ چیک کرنا ہوگا؟ یہ جواز پولیس کی جانب سے گزشتہ روز رمضان المبار ک میںانتظامات ، شب ِ قدر اورعید کی نمازکے اوقات وغیرہ سے متعلق بلائی گئی میٹنگ میں مساجد اوراداروں کے ذمہ داران کی جانب سے سوال کئے جانے پرپیش کیا گیا۔میٹنگ میںمولانا نوشاد احمد صدیقی ، امیرالدین ، مڈ مسجد کے امام ، مولانا رضوان احمد قاسمی اور دیگر لوگ موجود تھے جبکہ کچھ ٹرسٹیان نےناراضگی کےسبب میٹنگ میںشرکت نہیںکی۔میٹنگ میںپولیس کی جانب سے رمضان المبارک میںمزیدکسی قسم کی مدد، شب ِ قدر میں کیا ہوتا ہے اورکتنی بھیڑبھاڑ ہوتی ہے، کے بارے میں پوچھنے کے علاوہ عیدکی نمازکے اوقات کے بارے میںپوچھا گیا تاکہ اسی کے پیش نظرپولیس کاپہرہ رکھا جائے۔ میٹنگ میںموجودمذکورہ بالا افراد نےکہاکہ پولیس کی جانب سے باقاعدہ فریق کی طرح جواب دیا جارہا تھا ،ایسا محسوس نہیں ہورہا تھا کہ پولیس اپنی یکطرفہ کارروائی کے تعلق سے نظرثانی پر آمادہ ہے یا جوکارروائی کی گئی ہے، اس میں پولیس کویہ احساس ہوکہ صرف مسلم نوجوانو ںکوہی گرفتار کیا گیا ہے جس سے سوال قائم کئے جارہے ہیںبلکہ صاف لفظو ں میںپولیس کی جانب سے کہا گیا کہ مسلم نوجوان ہی قصور وار ہیں۔
ڈی سی پی بنسل کی سربراہی میںسینئرانسپکٹر شیکھر بھالے راؤ کی جانب سےٹرسٹیان اورذمہ داران کی بلائی گئی میٹنگ میںپولیس کی جانب سے یہ کہا گیا کہ جنہیںگرفتار کیا گیا ہے ، ان کی حرکتیں سی سی ٹی وی میںقید ہیں۔ڈی سی پی بنسل کاکہناتھا کہ ابھی تو ۱۰؍ ۱۲؍دن ہوئے ہیں، تفتیش جاری ہے اور چارج شیٹ داخل کرنے کے لئے ۹۰؍دن کی مہلت ہوتی ہے۔کارروائی جاری ہے۔