دفترسے نکل کر کرلا پہنچا اور مانخورد کی ٹرین میں سوار ہی ہوا تھا کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی، ریسیو کیا تودوسری جانب ناصر صاحب تھے جو یہ جاننا چاہ رہے تھے کہ میں کہاں پہنچا ہوں، کچھ ہی دیر میں دیگر احباب کے بھی فون آنے شروع ہوگئے۔ معلوم ہواکہ سنیچر کی شب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے (کہ اکثر لوگوں کی اتوار کو دفترکی چھٹی ہوتی ہے) باہر کچھ کھانے پینے کا منصوبہ بنا ہے۔ مجھے ہدایت ملی کہ گھر نہ جائیں، رات کاکھانا ساتھ کھائیں گے اسلئے (چیتاکیمپ میں لینڈ مارک کی حیثیت رکھنے والی ) جنتا ہوٹل کے پاس ملیں۔ ناصر جنہوں نے اب نوی ممبئی بسا لیاہے، فاروقین (فاروق قاضی اور فاروق میواتی ) کے ساتھ جنتاہوٹل کے سامنے منتظر ملے۔ اتنی رات کو ناصر کی چیتاکیمپ میں موجودگی باعث حیرت تھی، معلوم کیا تو کہنے لگے کہ مہینے بھر یہیں والد کے ہاں مقیم رہیں گے۔ وجہ دریافت کی توکہا:’بھائی وہاں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ رمضان کا مہینہ چل رہاہے۔ اتنا کہہ کر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر شبیر ہوٹل کی طرف چل پڑے ۔
چیتاکیمپ شمال مشرقی ممبئی میںواقع دیگر مسلم بستیوں جیسی ہی ایک بستی ہے۔ وہی مسلم بستیوں والے مسائل اور وہی سہولتیں۔ مسلم بستیوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہےکہ اکثر سڑکیں مارکیٹ کی شکل اختیارکرلیتی ہیں جن کی رونق رمضان میں دوبالا ہوجاتی ہے۔ وقت کے ساتھ یہاں بھی یہی ہوا ہے۔ پہلے رمضان کے مہینے میں ’رات کی رونق‘ ایم جی آر روڈ (جو مین روڈ کہلاتی ہے) پر بنگالی چاچا (مرحوم) کی پان کی دکان کے سامنے لگنے والی مال پوا اورفیرینی کی دکان تک محدود ہواکرتی تھی مگر وقت کے ساتھ کئی دکانیںکھل گئیں۔ شاید اس لئے کہ کھانے والے بھی بڑھ گئے۔ ۱۹۷۶ء میں جنتاکالونی کے ٹوٹنے کے بعد بسائی گئی یہ بستی ۹۳۔۱۹۹۲ء کے بعد تیزی سے وسیع ہوئی اور اصل بستی کے مقابلے کئی گنا بڑھ گئی۔ مارکیٹ روڈ مارکیٹ کیلئے ناکافی ہونے لگا اور بازار دیگر سڑکوں پر پھیل گیا۔افطار کے وقت بازار روڈ پر، جو کافی طویل ہے، تل دھرنے کو جگہ نہیںہوتی جبکہ مین روڈ اور دیگر سڑکوں پر بھی کم وبیش یہی عالم ہوتا ہے۔
افطار کے بعد (ٹھیلوں پر لگی ہوئی )وہ دکانیں چھٹتی ہیں تو عید سے متعلق سامان فروخت کرنے والوں کے ٹھیلے لگ جاتے ہیں اور پھر رات ہوتے ہوتے وہ علاقے آباد ہوجاتے ہیں جنہیں آپ ’چیتاکیمپ کی چٹور گلیاں‘ کہہ سکتے ہیں۔ رات بھر نہ صرف ہوٹلیں کھلی رہتی ہیں بلکہ سڑک پر کہیں فیرینی اور مال پوا تو کہیںیخنی پلاؤ، کہیں پایا تو کہیں تلی پاؤ، کہیں اڈلی ڈوسا تو کہیں بھونا اور تندوری یوں فروخت ہورہا ہوتا ہے جیسے رات نہیں دن نکلاہو۔ بستی میں داخل ہوکر چند قدم چلتے ہی راحت ہوٹل میں آپ بھونا، توا پلاؤ، تندوری، بوٹی، سیخ اور دیگر چیزوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ یہاں سے کچھ آگے بڑھنے پر دائیں ہاتھ پر بہترین فالودہ آپ کو اپنی جانب متوجہ کرتا نظر آئےگا۔ بائیں ہاتھ پر ایک سے زائد چائنیز ہوٹلوں کے باہر پارسل کیلئے بھیڑ اکٹھا دکھائی دیتی ہےتو کچھ ہی آگے بڑھنے پر حنیف کے کھچڑے کی گاڑی پر، راجو بھائی کی ہریس کے ٹھیلے پر اور آگے آم کے شربت کی دکان پر اتنی بھیڑملے گی کہ کوئی نووارد دیکھے تو ہوش گنوا بیٹھے۔ کریم توا کارنر کاشاورمہ، پزا، فرینچ فرائز اور برہان پور جلیبی، گلاب جامن اور دہی بڑے بھی ہر گزرنے والے کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ رمضان ماہِ خورد و نوش نہیں ہے مگر …. بہتوں کا خیال ہے کہ اس ماہ میں شکم کی ناز برداری کچھ زیادہ ہوجاتی ہے۔
سڑک پر اورآگے بڑھیں تولکی ڈیری کے آگے ایک اسٹال لگا رہتا ہے جس کا مقصد زیر تعمیر ایف سیکٹر جامع مسجدکیلئے چندہ اکٹھا کرنا ہے۔ بستی میں داخل ہوتے ہی یہ سب سے پہلی مسجد ہے جس کے گنبد و مینار یہ دعوت دیتے تھے کہ اگرنماز نہیں پڑھی ہے تو پڑھ کر گھر جائیں۔ نئی تعمیر کیلئے مسجد کو چند ماہ قبل ہی شہید کیاگیاہے۔ تعمیری کام جاری ہے۔ مسجد کے ٹرسٹیان اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں اور مصلیان منتظر ہیںکہ جلد از جلد مسجد از سر نوتعمیر ہو۔ اکثرعشاء بعد عبدالکریم صاحب جو کریم بابا کے نام سے مشہور ہیں یہاں مائیک پر لوگوں کو تعمیر ِمسجد میں حصہ لینے کی ترغیب دلاتے نظر آتے ہیں۔ یقین ہے کہ مخیر حضرات کی توجہ سے بہت جلد عالیشان مسجد تعمیر ہو جائیگی۔
اسی اسٹال کے قریب دو روز قبل حنیف بھائی مل گئے، اکثر جب سابق ڈائری نگار عبدالحئی انصاری ڈائری نگاری کے مقصد سے چیتا کیمپ آتے توان سے ملاقات ہوتی تھی۔ ملتے ہی پوچھنے لگے کہ کئی برسوں سے ڈائری لکھنے والے بھائی نہیں آئے؟ ہم نے ٹوکا کہ ڈائری والے بھائی نہیں وہ خود کو ’’چچا ڈائری‘‘ کہلانا پسند کرتے تھے، ان دنوں سخت علیل اور خصوصی دعاؤں کے طالب ہیں۔ حنیف بھائی ان کی علالت کی تفصیل معلوم کرنے کے بعد، صحت یابی کی دعا کرتے ہوئے آگے بڑھے اور ہم گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔