موجودہ حکومت میں سیاسی پیغام دینے یا جمہوری روح کو تباہ کرنے کیلئے قانون کو ہتھیار بنانا ایک معمول بن گیا ہے۔ قانون کا نفاذ بیوروکریٹس یا ججوں کے ذریعے اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس سے نظام کا مذاق بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک ’ہائیڈرا ہیڈڈ ایکو سسٹم‘ (مسئلے کو ختم کرنے کی کارروائی جس سے مسئلہ مزید بڑھ جائے) موجودہ قوانین اور طریقہ کار کو غلط طریقے سے استعمال کرتے ہوئے آئینی جمہوریت کی روح کو پامال کرنے کیلئے پورے ہفتے چوبیسوں گھنٹے مسلسل کام کر رہا ہے۔
ڈاکٹربی آر امبیڈکر کا ایک مشہور مقولہ ہے:
آئین کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو،اگر اسے نافذ کرنے والے برے ہیں تو وہ برا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح آئین کتنا ہی برا کیوں نہ ہو، اگر اسے نافذ کرنے والے اچھے ہوں تو وہ اچھا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے جو کہا تھا وہ اس تناظر میں اور بھی زیادہ متعلق ہو جاتا ہے کہ کس طرح عام قوانین کو بیوروکریسی اور نچلی عدلیہ کی سطح پر آئینی حقوق کو پامال کرنے کیلئے استعمال یا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ لوک سبھا سے راہل گاندھی کی رکنیت کا کھو جانا اس کی بہترین مثال ہے۔واقعات کی ’کرونولوجی‘ واضح ہے اور پوری حقیقت بیان کرتی ہے۔ ۱۳؍ اپریل۲۰۱۹ء کو، راہل گاندھی نے کرناٹک میں ایک تقریر کی جس میں انہوں نے سوال کیا تھا کہ ’’سارے چوروں کے نام میں مودی کیوں ہے؟‘‘ اس واقعے کے کچھ ہی دنوں کے اندر، گجرات بی جے پی کے ایک ایم ایل اے پورنیش مودی نے گجرات کی ایک عدالت میں مجرمانہ ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا کہ راہل گاندھی نے مودی برادری کو بدنام کیا ہے۔ یہ سب ظاہری طور پر ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات کے درمیان ہو رہا تھا۔عام انتخابات ختم ہوئے اور مودی کو ایک بار پھر واضح انتخابی کامیابی ملی۔
الیکشن میں نریندر مودی کی واضح کامیابی کے بعد یہ معاملہ غالباً سیاسی طور پر اپنی اہمیت کھو بیٹھا تھا، لیکن عدالتی کارروائی جاری رہی۔اس درمیان راہل گاندھی نے اپنا پہلا بیان۲۴؍ جون۲۰۲۱ء کو سورت میں چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں ذاتی طور پر پیش کیا۔ اس کے بعد شکایت کنندہ کی اس معاملے سے دلچسپی کم ہوگئی،اسلئے اس نے ٹرائل کورٹ کی کارروائی کو روکنے کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اپیل واپس لینے کی عرضی داخل کی۔
نامور سینئر وکیل کپل سبل اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’ عموماًایسا نہیںہوتا کہ کوئی مقدمہ دائر کرنے والا شکایت کنندہ مقدمے کی سماعت روکنے کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع کرے، جب تک کہ اسے یقین نہ ہو کہ ٹرائل کورٹ میں اس کے جیتنے کے امکانات کم ہیں۔‘‘
۲۷؍فروری۲۰۲۳ء کو ایک اور چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے یہ معاملہ اچانک دوبارہ شروع ہوا، جب پورنیش مودی نے ہائی کورٹ میں دائر اپنی درخواست واپس لے لی، جس نے گاندھی کے خلاف نچلی عدالت کی کارروائی پر روک لگا دی تھی۔ سبل کہتے ہیں کہ ’’ہائی کورٹ میں کارروائی کی فوری واپسی، مقدمے کی دوبارہ سماعت، کارروائی کا وقت اور معاملے کی اچانک سماعت کئی سوالات کو جنم دیتی ہے، جن کا جواب شاید وقت آنے پر مل سکے۔‘‘
واقعات کی ترتیب واضح طور پر بتاتی ہے کہ حکمران محاذ نچلی عدلیہ کو اپنے حساب سےچلانے کے طریقے پر خاص یقین رکھتے ہیں۔ جس آسانی اور اعتماد کے ساتھ قانون کو مستقل بنیادوں پر ہتھیار بنایا جارہا ہے وہ دیگر معاملات میں بھی نظر آتا ہے، جس کا بنیادی مقصد ایک مضبوط سیاسی پیغام دینا ہے۔یہ اتنا واضح ہے کہ اب عام شہریوں کو بھی اس چال کا واضح اندازہ ہونے لگا ہے۔
مثال کے طور پر، گزشتہ ہفتے دہلی پولیس نے عوامی املاک کو نقصان پہنچانے سےمتعلق قانون کا استعمال کرتے ہوئے قومی دارالحکومت میں کئی مقامات پر’مودی ہٹاؤ، دیش بچاؤ‘ کے پوسٹر لگانے والوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کیا۔ جمہوریت میں ایک بالکل درست نعرے کو اس بنیاد پر جرم بنا دیا گیا کہ اس نے عوامی املاک کو نقصان پہنچایا۔ اس معاملے میں چوٹ کہیں اور لگی ہے اور بتایا کچھ اور جارہا ہے۔ یہاں پر واضح طورپر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح جمہوری رائے کو دبانے کیلئے ایک عام قانون کا استعمال کیا گیا۔ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، دہلی اور بی جے پی کی حکمرانی والی دیگر ریاستوں میں بلڈوزر کا مسلسل استعمال بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
آخر کار، اپوزیشن جماعتیں تحقیقاتی ایجنسیوں کو ہتھیار بنانے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رہی ہیں جو ایسے قوانین کا استعمال کرتی ہیں جہاں ثبوت کی ذمہ داری صرف ملزمین پر ہوتی ہے۔ یہ ایک آمرانہ حکومت کے رجحان کو بے نقاب کرتی ہے۔سینئر وکیل ابھیشیک سنگھوی کا کہنا ہے کہ اگر لیڈروں کے خلاف درج کئے گئے۹۵؍ فیصد سے زیادہ کیس اپوزیشن لیڈروں کے خلاف ہیں تو جمہوریت میں برابری نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ بی جے پی کا یہ کہنا کہ’قانون کو اپنا کام کرنے دیں‘ بھی واضح کرتا ہے کہ اسے ’قانون‘ پر کس حد تک اعتماد ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات اس بات کا یقین دلاتے ہیں ملک میں کہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔
یہ ایک ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ اقتدار پرقابض لوگ جو ڈاکٹر امبیڈکر کی عظمت کا گن گان کرتے ہوئے نہیں تھکتے ، وہ ۱۹۴۹ء میں دستور ساز اسمبلی کے مباحثوں کے درمیان کی گئی ان کی تقریروں کی روح کی کھلم کھلا توہین کر رہے ہیں۔