امریکی تھنک ٹینک پیو (Pew)ریسرچ سینٹرکی ایک سروے رپورٹ گزشتہ دنوں منظر عام پر آئی۔ اس سروے کا مقصد مستقبل میں تکنیک کے استعمال سے پیدا ہونے والی ممکنہ صورتحال اور انسانوں پر اس کے اثرات کا اندازہ لگانا تھا۔ اس سروے میں تقریباً ۵۴۰؍ ماہرین نے حصہ لیا اور تکنیک کے بڑھتے استعمال کے سبب انسانی زندگی پر مرتب ہونے والے ممکنہ مثبت اور منفی اثرات کی نشاندہی کی ۔ان ماہرین نے یہ اعتراف کیا کہ عہد حاضر میں تکنیکی وسائل پر انسانی زندگی کا انحصار جس تناسب میں بڑھتا جا رہا ہے، اس سے زندگی کے بعض معالات میں جہاں سہولتیں اور آسانیاں پیدا ہوئی ہیں وہیں بعض ایسے معاملات بھی رونما ہو رہے ہیں جو زندگی کی پیچیدگی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس سروے رپورٹ میں جس بات پر خصوصی زور دیا گیا ہے وہ یہ کہ تکنیک کے بے تحاشا استعمال کے سبب آئندہ کچھ برسوں میں انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے گا۔ ان ماہرین کے قیاس کے مطابق یہ صورتحال آئندہ دس برسوں میں وقوع پذیر ہو جائے گی۔ اگر ماہرین کے ذریعہ بتائی گئی اس مدت میں زندگی واقعی اس نہج پر چل پڑی تو یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ ذہانت سے عاری سماج میں انسانی رویہ کا کیا رنگ ہوگا؟ اوراس امکانی صورتحال سے خود کو محفوظ رکھنے والے انسانوں کو کیا مسائل درپیش ہوں گے ؟
یہ ایسے سوالات ہیں جن پر غور کرنا اسلئے بھی ضروری ہے کہ ماہرین کے مطابق زندگی کے ہر شعبے میں تکنیک پر انسانوں کے انحصار کے سبب جو ممکنہ صورتحال رونما ہو گی وہ اگر چہ ایک دہائی کے بعد حقیقت کی شکل اختیار کرلے گی تاہم اس کے آثار ابھی سے ہی نظر آنے لگے ہیں۔اگر ارد گرد کے حالات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو بہ آسانی ایسے لوگ مل جائیں گے جو اپنی فطری زندگی جینے کے بجائے مشینی طرز حیات کے عادی ہو چکے ہیں۔ جوں جوں زندگی میں تکنیکی وسائل کی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے ایسے لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اب ایسی صورت میں زندگی کے ان معاملات کی نوعیت کیا ہوگی جن کا دارومدار بیشتر انسانی جذبات و احساسات کی بوقلمونی اور تنوع پر ہوتا ہے؟جذبات و احساسات کی یہ بوقلمونی ہی زندگی کی تصویر میں رنگ بھرتی ہے ۔جذبہ و احساس کی اس رنگ آمیزی کے سبب ہی انسان اپنی نجی اور اجتماعی زندگی کے ان مسائل و معاملات کادرک حاصل کر پاتا ہے جو اس کے رویے اور شخصیت کو ایک واضح شکل عطا کرتے ہیں۔ اگر سبھی انسان ایک ہی جیسے رویے کے حامل ہو جائیں تو زندگی کس قدر بے کیف ہو جائے گی اس کا اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے ۔
اس سروے رپورٹ میں خصوصی طور سے اس پہلو پر تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ مصنوعی ذہانت آئندہ کچھ برسوں میں انسان کی اصل ذہانت پر غالب آجائے گی اور یہ غلبہ انسانوں کو سوچنے سمجھنے کی صلاحت سے محروم کر دے گا۔آج کل ہر شعبۂ حیات میں مصنوعی ذہانت کے متعلق انسانوں کی دلچسپی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملہ میں اس کے استعمال کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ اس رجحان کا اثر ہر عمر ، جنس اور طبقہ پر رونما ہو رہا ہے اور اس معاملے میں ترقی یافتہ اورترقی پذیر ممالک کا وہ روایتی امتیاز بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا جس کی بنا پر ترقی یافتہ ممالک ہر معاملے میں احساس برتری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ترقی پذیر ممالک کو احساس کمتری کے دائرے میں محصور رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کرتے ہیں۔ تکنیکی وسائل کی آسان فراہمی نے اس امتیاز کو کسی حدتک ختم تو کر دیا ہے لیکن زندگی کے بعض بنیادی معاملات میں یہ امتیاز آج بھی برقرار ہے اور اصل مسئلہ اس متضاد صورتحال کے سبب ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے باہمی روابط کو یہ متضاد صورتحال کئی جہتوں سے متاثرکررہی ہے اور اس کا مشاہدہ سیاست، سفارت، معیشت اور زندگی کے ان دیگر بنیادی معاملات میں کیا جا سکتا ہے جو کسی بھی ملک و معاشرہ کو متمول اورخوشحال بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس سروے رپورٹ میں بھی اس جانب اشارہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تکنیکی وسائل اور مصنوعی ذہانت کے استعمال کا بڑھتا دائرہ نہ صرف انسانوں کی انفردی زندگی کو متاثرکرے گا بلکہ اس کے اثرات حکومت، کارپوریٹ اور سماجی اداروں پر بھی پڑیں گے اور ان تمام کا طرز عمل بڑی حد تک مشینی نوعیت کا حامل ہو جائے گا۔ اس امکانی صورتحال کا دوسرا رخ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض قوتوں کو وہ حیثیت حاصل ہو جائے کہ وہ ملک و معاشرہ کو اپنی مرضی اور خواہش کا تابع بنالیں۔ ایسی صورت میں ان قوتوں کے ذریعہ ان اہداف کو سر کر لینا بھی بڑی حد تک آسان ہو جائے گاجو اُن کے ذاتی افکار و جذبات کی تشفی کرتے ہوں۔ ایسی صورت میں وہ تمام ادارے بے وقعت ہو جائیں گے جن کے قیام کا بنیادی مقصد مہذب سماج میں انسانی حقوق و فرائض کی نشاندہی اور ان کا تحفظ کرنا ہے۔اس طرز کے بعض معاملات ابھی سے رونما ہونے لگے ہیں۔یہی سبب ہے کہ ملکی و عالمی سطح پر ان قوتوں کا غلبہ ہوتا جارہا ہے جو اپنی چرب زبانی سے سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی حقائق کو اس قدر مسخ کر دیتے ہیں کہ جس کی بنا پر بہ آسانی عوام کا استحصال کیا جا سکے۔ چونکہ سماج کی اکثریت اب اپنے روزمرہ کے معاملات و معمولات کا خاکہ ترتیب دینے میں بڑی حد تک تکنیک پر منحصر ہو گئی ہے لہٰذا اپنے نجی اور اجتماعی معاملات کی صداقت و حقیقت کو دریافت کرنے میں منطقی اور معروضی رویہ اختیار کرنے کا رجحان بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے ۔ امریکی سروے رپورٹ میں مستقبل کے جس انسانی معاشرہ کا امکانی خاکہ پیش کیا گیا ہے اس کی ابتدائی صورت اس عہد ہی میں بہ آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔
زندگی کے معاملات میں تکنیک کے استعمال کا وسیع ہوتا دائرہ معاشرتی سطح پر بھی اپنا اثر دکھاتا ہے ۔ اس وقت عالمی سطح پر انسانی معاشرہ اقداری معاملات میں جن مسائل کا سامنا کر رہا ہے اس کی ایک وجہ زندگی میں تکنیک کی بڑھتی ہوئی وہ مداخلت بھی ہے جس نے فہم و فراست کے استعمال کا دائرہ محدود کر دیا ہے۔تکنیک کے استعمال کے متعلق بڑھتا انہماک اس دائرے کو محدود تر کرتا جارہا ہے ۔ ایسی صورت میں اگر یہ قیاس ظاہر کیا گیا ہے کہ آئندہ کچھ برسوں میں انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے گا تو اسے پوری طرح مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی زندگی میں ڈیجیٹل آلات اور مصنوعی ذہانت کے بڑھتے استعمال کے سبب ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ان تکنیکی آلات اور انسانوں کے درمیان تصادم کی صورت پیدا ہو جائے گی ۔ماہرین نے اس امکانی صورت پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس مرحلے پر پہنچنے کے بعد انسانی جذبات و احساسات بے وقعت ہو جائیں گے اور انسانی اعمال مکمل طور پر مشینی طرز اختیار کر لیں گے۔
انسانی زندگی میں تکنیکی وسائل کے استعمال میں اگر اعتدال باقی نہیں رہا توسب سے بڑا نقصان انسانی ذہانت کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔زندگی کے مسائل اور معاملات میں آسانی اور سہولت کی خاطر انسانی معاشرہ جس راہ پر گامزن ہے اس میں ہر مرحلے پر انسانی ذہانت اور فہم و فراست کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ موجودہ دور میں معلومات کا انبار ہونے کے باوجود علم کا معیار پست ہوتا جا رہا ہے ۔ اس پیچیدہ صورتحال ہی کا نتیجہ ہے کہ اب زندگی کے بیشتر معاملات میں انسانی رویہ معروضیت اور منطقی طرز فکر سے عاری نظر آتا ہے۔اس وقت انسانی معاشرہ ایسی متضاد صورتحال سے دوچار ہے جس میں بہ ظاہر عقلیت پسندی کو فوقیت حاصل ہے لیکن اس نام نہا د عقلیت پسندی میں معروضیت اور منطقی رویہ کا فقدان واضح نظر آتا ہے۔ یہ فقدان آئندہ کچھ برسوں کے دوران اپنی اس انتہا پر پہنچ جائے گا جہاں انسانی ذہانت مکمل طور پر کالعدم ہو سکتی ہے۔ یہ سروے انسانی زندگی پر تکنیک کی یلغار کے متعلق ایسا انتباہ ہے جس سے بچنے کیلئے اگر موثر اور معتدل اقدامات نہیں کئے گئے تو مستقبل کا معاشرہ ان انسان نما مشینوں پر مبنی ہوگا جو فہم و فراست اور جذبہ و احساس سے خالی ہوگا اور یہ صورتحال یقینا انسانیت کیلئے ایک سنگین بحران کی مانند ہوگی جو عالمی سطح پر انسانی تہذیب و تمدن کو وسیع پیمانے پر متاثر کرے گی ۔