اردو اسکولوں کی کمیوں اور خامیوں کا آج ہم جائزہ لے رہے ہیں تو اس ضمن میں ان اسکولوں کے انتظامیہ کے کردار کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ بدبختی سے ہمارے یہاں گاؤں کے تعلیمی وسماجی اداروں کے ذمّہ دارا کثر و بیشتر وہاں کے ’ٹھا کُر‘ ہوتے ہیں یعنی گاؤں پنچایت یا جماعت کے بااثر افراد۔بلاشبہ اُن میں سے کچھ سنجیدہ بھی ہوتے ہیں کہ اُن کے زمانے میں اسکولیں نہیں ہوا کرتی تھیں اسلئے کسی کو دوسرے گائوں میں میلوں پیدل جانا پڑتا تھا اور کسی کو کوئی ندی پار کرکے ہی اسکول تک رسائی ہوتی تھی البتہ ان کی بڑی اکثریت وہاں کے تعلیمی اداروں کو بھی اپنی پنچایت کی طرح چلاتے ہیں لہٰذا اکثر ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ ان کے دربار میں حاضری لگاتے رہتے ہیں۔ اس قبیل اساتذہ تدریس کے تقدّس کا احساس ہی نہیں رکھتے۔ تدریس اُن کیلئے صرف ایک پیشہ یا ۹؍بجے سے ۵؍بجے والا جاب ہوتا ہے۔ ایسے اساتذہ انتظامیہ کے ذمّہ داران کی سیاست یا آپسی رسّہ کشی پر بھرپور نظر رکھتے ہیں کہ اُن میں سے کس سیکریٹری کو چیئرمین بننا ہے اور نائب صدر کو صدر اور پھر تدریس کے اعلیٰ مرتبے پر فائز اساتذہ اُن ذمہ داران کیلئے مخبری کا کام کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح کچھ اساتذہ کی ملازمت برقرار رہتی ہے اور کچھ ترقی بھی پالیتے ہیں۔ ہمارے شہروں میں اسکولوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں: ’باوقار لوگ ‘۔ یہ لوگ تعلیمی اداروں کے ذمہ دار اسلئے بنے رہتے ہیں کہ اس سے ان کا محلّے، بستی، علاقے،وارڈ اور اخبارات میں نام بنا رہے۔شہروں کے ہمارے اکثر تعلیمی اداروں کے سربراہان وہ ہوتے ہیں جن کا تعلیم کے علاوہ ہر فیلڈ سے واسطہ ہوتا ہے۔ کچھ سیاست سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنی پارٹی کے لیڈروںاور وزراء کو اسکول کی ہر چھوٹی بڑی تقریب میں مدعو کرتے رہتے ہیں، جس سے اُن کا سماجی ’وقار‘ بنا رہے۔ سیاسی لیڈران تو صرف اس گنتی میں ماہر ہوتے ہیں کہ فلاں تعلیمی ادارے یا گروپ میں ۲۵؍ ہزار طلبہ زیرِ تعلیم ہیں یعنی وہاں پر ۵۰؍ہزار والدین یعنی ووٹرس بھی موجود ہیں۔ یہ معاملہ ہے ہمارے مِلّی اداروں کے انتظامیہ کا۔
اس کے علاوہ انگریزی اسکولوں میں اگر مسئلہ یہ ہے کہ انتہائی قلیل تنخواہ پر اساتذہ کا تقرر کیا جاتا ہے تو اردو اسکولوں کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کئی اداروں میں لاکھوں روپوں کی رشوت لئے بغیر استاد کا تقرر ہوتا ہی نہیں۔ آج تو یہ رشوت ۱۵؍تا ۲۰؍ لاکھ روپے فی ٹیچر تک پہنچی چکی ہے، لہٰذااستاد کا تقرر اس کی تعلیمی قابلیت، صلاحیت اور تجربہ وغیرہ کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کتنی موٹی رقم رشوت کے طور پر دے سکتا ہے اور اس طرح آج اکثر تعلیمی اداروں میں رِشوت کا بازار گرم ہے۔ کچھ اس حد تک کہ ۲۰۲۷ء میں جو ٹیچر ریٹائر ہونے والا ہے اس کی جگہ پر کسی اُستاد کی تقرری کیلئے ۵؍ سال قبل ہی پیشگی رشوت دے کر استاد کا تقررپکّا کردیا جاتا ہے۔ اب اس طرح محض رشوت کی بنیاد پر نااہل اسا تذہ کا تقرر ہو جاتا ہے تو ہمارے اُردو اسکولوں کو معیاری بنانے کا خواب کیسے پورا ہوگا ؟
بدعنوانی و رِشوت لے اور دے کر اپنی قوم کے تعلیمی اداروں کو تباہ کرنا اور اُن کی جڑیں کھوکھلی کر نے جیسی قبیح و مذموم حرکتوں کیلئے کون ذمّہ دار ہے؟ مغربی طاقتیں، صہیونی فورس، اسرائیل یا سنگھ پریوار؟ یہ قوم و ملّت دشمن حرکتیںہماری قوم کے ’بڑے‘ ہی کر رہے ہیں نا؟ آخر ہم اس قدر بے حِس کیسے ہوتے جارہے ہیںنہ خدا کا خوف ہے اور نہ ہی قوم کے تعلیمی ادارے اور اُن میں زیرِ تعلیم طلبہ کے مستقبل کی کوئی فکر !
۲۹۔ دشمنوں سے کیا شکوہ؟ کیا گِلہ رقیبوں سے؟
باتیں کچھ تلخ و ترش ہیں، کچھ کڑوی کسیلی بھی ہیں مگر ہمارا تعلیمی منظرنامہ بڑا حسین و جاذب ہے اگر ہم یہ دعویٰ کرتے رہے تو یہ شتر مرغ کی طرح ریت میںسر دبا کر ’سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے‘ کہنے والی بات ہوگی۔ اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں سب ٹھیک ٹھاک ہوتا تو اتنی طاقتور زبان کے اداروں کا حال اس قدر دگر گوں کیوں کر ہوتا؟ آئیے ہمارے اداروں کی شکستہ حالی و خستہ حالی کا حقیقی جائزہ لیں:
(الف) ایک بار ایک بڑے اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے ہم نے دریافت کیا کہ اُن کے اسکول کی اتنی عالیشان عمارت اور اِنفر اسٹرکچر کے باوجود اُن کے اسکول کے دسویں، بارہویں اور اسکالر شِپ کے امتحان کا نتیجہ خراب کیو ںرہتا ہے؟ ہیڈ ماسٹر نے اپنی میز کی دراز کھولی اور ایک کاغذ سامنے رکھا، جس پر اسکول کے رزلٹ بگڑنے کی ساری وجوہات اُنھوںنے پہلے ہی سے ٹائپ کر رکھی تھیں کہ کتنے بچّے غریب ہیں، کتنے بچّے ناشتہ کرکے نہیں آتے ہیں، کتنوں کے والدین یومیہ مزدوری پر کام کرتے ہیں وغیرہ۔ ہم نے اُن سے کہا کہ ’’ صاحب ، آپ کی یہ وجوہات معقول ہیں مگر مقبول نہیں،قابلِ قبول نہیں کیوں کہ لگ بھگ ساری مسلم قوم اور دیگر پسماندہ اقوام اِنہی حالات سے گزر رہی ہیں، یہ سب کچھ رُکاوٹیں کیوں کر بن سکتی ہیں؟ ‘‘
(ب)جمہوری نظام میں جہاں کچھ اچھائیاں ہیں وہیں کچھ خرابیاں بھی ہیں۔ ان میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میںاکثریت اپنی بات منواتی ہے۔ تعلیمی نظام میں بھی سیاست دانوں نے اس ’اکثریت‘ والی تھیوری کا خوب خوب فائدہ اُٹھایا مگر والدین کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ اُن کے بچّے امتحان کے ٹینشن سے نہ گزریں، بس پھرکیا تھا، سیاست دانوں نے آٹھویں جماعت تک امتحان ہی غائب کردیا ۔ بدقسمتی سے ہمارے اساتذہ نے اس سیاسی ہتھکنڈے کی مخالفت نہیں کہ جبکہ اس فیصلے پر تو اُنھیں زمین آسمان ایک کردینا چا ہئے تھا۔پرائمری اسکول کے اساتذہ اسلئے خاموش رہے کہ آٹھویں تک امتحان نہیں، اُس سے اُنھیں کیا؟ بھگتنا تو نویں /دسویں جماعت کے اساتذہ کو ہے۔ وہی بچّوں کو پہاڑے سکھائیں گے، جمع، نفی کے سوالات حل کرائیں گے۔ امتحان نہیں یعنی نہ پرچہ مرتّب کرنا ، نہ ہی اُسے جانچنا ہے!
(ج) آج بھی سرکاری قوانین و ضوابط کی آڑ میں چند اساتذہ حتّیٰ کہ ہیڈ ماسٹر صاحبان بڑی تساہلی سے کام لیتے ہیں۔ جیسے کوئی ہیڈ ماسٹر یہ کہے کہ ’قانون‘ کے مطابق اُسے روزانہ زیادہ سے زیادہ ۳۰؍منٹ ہی پڑھانا ہے۔اساتذہ غیر حاضر رہیں تو ہوا کریں اُن کی جگہ پر جاکر پڑھانا اُن کی ذمہ داری نہیں۔ ہم اردو اسکولوں کے چند ایسے ہیڈ ماسٹرس، اسسٹنٹ ہیڈ ماسٹرس اورسپروائزرس سے بھی واقف ہیں جو پچھلے کئی برسوں سے کلاس روم میں داخل ہی نہیںہوئے، اُنھوںنے ہاتھ میںچاک اور ڈسٹر پکڑا ہی نہیں ۔ وہ محکمہ تعلیم کے اس قانون کا سہارا لیتے ہیںکہ وہ چاہیں تو اپنے اسکول کے صرف منتظم کے طور پر کام کرسکتے ہیں۔ ایسے اساتذہ یہ نہیںسمجھتے کہ اس طرح اُن کے اندر کا اُستاد مرجاتا ہے۔کوئی اُستاد ہی اپنے اندر کے اُستاد کو مرنے کیسے دے سکتا ہے؟
(د) ایک اُستاد نے دوران گفتگو توہم سے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’حکومت کہ نئی پالیسی کے مطابق صرف طلبہ نہیں بلکہ اساتذہ کو بھی ذہنی ٹینشن سے دُور کرناہے۔ اسلئے انتظامیہ کو اساتذہ کیلئے نِت نئے تربیتی پروگرام کا انعقاد نہیں کرنا چاہئے، ان کی وجہ سے ہم ذہنی تنائو کا شکار ہوجاتے ہیں۔‘‘ افسوس کی بات ہے کہ علم حاصل کرنا، نئی بات سیکھنے کے عمل کو کوئی اُستاد’ذہنی تنائو‘سے تعبیر کیوں کر کرسکتا ہے؟ جمہوری بیماریاں،حکومت کے فرمودات پر اندھا دھند بلکہ شدّت سے عمل کرنا، انتظامیہ کو اساتذہ کی تنظیموں یایونین کے سامنے بے بس کرنا…اب اس کے بعدہمارے تعلیمی ادارے زندہ رہ سکتے ہیں کیا؟