سعودی عرب کے محکمہ ٔ غذا نے، جسے جنرل فوڈ سیکوریٹی اتھاریٹی (جی ایف ایس اے) کہا جاتا ہے، ابتداءِ رمضان میں چند ہدایات جاری کیں جن کا مقصد یہ تھا کہ اِس ماہ مبارک میں کھانے پینے کی اشیاء ضائع نہ ہوں۔ اس محکمے کا اندازہ ہے کہ مملکت سعودی عربیہ میں ۳۳؍ فیصد غذا ضائع ہوتی ہے جس کی اندازاً قیمت ۱۱؍ ارب ڈالر (۴۰؍ ارب ریال) سالانہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خطیر رقم ہے۔ جاری شدہ ہدایات میں کہا گیا تھا کہ غذائی اشیاء انواع و اقسام کی ہیں تو اس میں مضائقہ نہیں مگر مقدار کم کم ہو، تاکہ احتیاط لازم رہے۔ مطلوبہ مقدار میں اشیاء کو استعمال کیا جائے تو باقیماندہ کو محفوظ رکھ کر بعد میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہدایات میں یہ بھی شامل تھا کہ گھروں میں غذا کی تیاری کے دوران بھی اعتدال کی راہ اپنائی جائے، زیادہ یعنی غیر ضروری مقدار میں غذا کی تیاری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
انڈونیشیا کے مشہور اخبار ’’دی جکارتا پوسٹ‘‘ میں اس روزنامہ کے مدیر برائے سیاسی اُمور اینڈی بایونی نے اپنے مضمون میں وہاں کے صدر کی اس اپیل سے بحث کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ سرکاری افسران پُرتکلف افطار سے گریز کریں جس میں وہ ایک سے بڑھ کر ایک دسترخوان سجاتے ہیں اور غیر معمولی تعداد میں لوگوں کو مدعو کرتے ہیں۔ اینڈی بایونی نے اس اپیل کو جائز ٹھہراتے ہوئے اس کو تقریباتِ افطار پر پابندی کے مترادف قرار دینے والوں کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پُرتکلف تقریباتِ افطار کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ رمضان المبارک کی روحانی اقدار فوت ہو رہی ہیں۔ مضمون سے یہ بھی آشکار ہے کہ بڑی بڑی افطار پارٹیاں انڈونیشیاکا رواج بن گئی ہے چنانچہ سرکاری دفاتر اور افسران ہی ایسا نہیں کرتے، کارپوریٹ اور دیگر کمپنیاں بھی غیر معمولی دعوتوں کا اہتمام کرنے لگی ہیں۔
واضح رہے کہ انڈونیشیاء کے زمینی حالات کا ہمیں علم نہیں ہے۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہاں کے صدر نے جو اپیل کی ہے اس کا کوئی دوسرا مفہوم بھی ہے یا وہی ہے جو ہم سمجھ رہے ہیں مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بادی النظر میں اُن کی اپیل سیاسی یعنی بے وجہ اور غیر افادی نہیں ہے۔ جب پُرتکلف دعوتِ افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے تو دعوت دینے والا اپنے منصب اور مرتبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے نت نئے پکوانوں اور ان کی غیر معمولی مقدار و تعداد کے ذریعہ اپنی فوقیت ظاہر کرتا ہے۔ جب ایک افسر یا محکمہ ایسا کرتا ہے تو دوسرا اُس پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی غذائی اجناس و اشیاء کا ضیاع ہوتا ہے۔
دو ملکوں کا جائزہ لینے کے بعد جب ہم اپنے ملک کے حالات کو آنکنے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں بھی بہت سے مقامات پر غذائی اشیاء کی حفاظت اور ضرورت بھر استعمال کی احتیاط پر عمل نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک کی شادیوں میں تو غذا کو ضائع کیا ہی جاتا ہے، رمضان میں مسلمان بھی اچھے سے اچھا اور زیادہ سے زیادہ کھلانے کی کوشش میں تضیع ِ غذا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اچھے سے اچھا اور زیادہ سے زیادہ کھلانے کی گنجائش تو یقیناً ہے مگر زیادہ سے زیادہ کی کوشش میں غذا کو ضائع ہونے سے بچانا بھی اہم ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو سمجھنا اور پورا کرنا ضروری ہے۔ جو ش اور جذبہ اچھی چیز ہے مگر ہوش کھوئے بغیر۔ ہوش کا تقاضا یہ ہے کہ تصویر کے دوسرے رُخ کو دیکھا جائے۔ ہمارے آس پاس ہی ایسے کئی خاندان مل جائینگے جنہیں افطار کیلئے کھجور تک میسر نہیں۔ بہتر ہوگا اگر ہم ایسے خاندانوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ یہ ایک بڑی خدمت ہوگی۔