کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کی لوک سبھا کی رکنیت منسوخ کرنے اورآئندہ ۸؍ سال تک ان کے الیکشن لڑنے پر پابندی عائد ہونے کےبعد جمعہ کو طلب کی گئی ہنگامی میٹنگ میں کانگریس کے قائدین نے ملک گیر سطح پر ’’جمہوریت بچاؤ‘‘ مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔اس کےساتھ ہی پارٹی نے موجودہ حالات میں اپوزیشن کے منظم اتحاد کی ضرورت پر زوردیا ہے۔ ہنگامی طور پر منعقد ہونے والی اس میٹنگ کی قیادت پارٹی کے صدر ملکارجن کھرگے نے کی جبکہ پارٹی کی سابق صدر سونیا گاندھی اور جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی بھی میٹنگ میں شامل تھیں۔
پارٹی کے سینئر لیڈر اور میڈیا انچارج جے رام رمیش نے میٹنگ کے بعد نگامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ہم نے راہل گاندھی کو نااہل قراردینے کے معاملے میں اپنی سیاسی حکمت عملی پر غور کیا۔ ابھیشیک منسو سنگھوی نے اراکین کو بتایا کہ اس معاملے میں قانونی لڑائی کس طرح لڑی جائے گی جبکہ آنے والے دنوں میں ہم نے ملک گیر سطح پر احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ پارٹی نے راہل کے معاملے میں اپوزیشن لیڈروں کے بیانات کا خیر مقدم کیا ہے اورموجودہ حالات میں اپوزیشن کے منظم اتحاد کی ضرورت پر غور کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن کے اتحاد کیلئے کانگریس کے صدر مختلف پارٹیوں کے لیڈروں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور پارلیمنٹ میں ہر روز ان سے گفتگو کی جاتی ہے۔ جے رام رمیش نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے اتحاد کے مظاہرے کے ساتھ ہی اب پارلیمنٹ کے باہر بھی اسی طرح کے اتحاد کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل پریس کانفرنس میں کانگریس اعلان کیا کہ وہ اس معاملے میں قانونی لڑائی پوری شدت سے لڑے گی۔ پارٹی کے ترجمان جے رام رمیش نے کہا کہ راہل گاندھی جب بیرون ملک اپنی بات رکھتے ہیں تو یہاں پارلیمنٹ میں انہیں گھیر لیا جاتا ہے۔ اس کے خلاف استحقاق کی خلاف ورزی کا مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ بی جے پی حکومت جمہوری طریقے سے کام نہیں کر رہی ہے اور پارلیمنٹ میں ہنگامہ کرکے گاندھی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جارہاہے۔
کانگریس ترجمان نے کہا کہ راہل گاندھی کے معاملے میں حکومت جلدی میں ہے اس لیے وہ مسلسل غلطیاں کر رہی ہے اور جب جلدی میں کام کیا جاتا ہے تو غلطی کے بعد غلطی شروع ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس بیان کی بنیاد پر راہل گاندھی کو سزا ہوئی وہ معاملہ کرناٹک کے کولار کا ہے لیکن معاملہ کہیں اور رپورٹ ہوا ہے اور یہیں سے یہ اقدام قانونی طور پر غلط ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس معاملے کی قانون کی دفعہ۲۰۲؍کے تحت تحقیقات ہونی تھی، لیکن اس معاملے میں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔