دارالحکومت دہلی میں حکام نے بی بی سی کے جنوبی ایشیاء بیورو اور ممبئی کے دفاتر پر چھاپہ مار کر انہیں سیل کر دیا۔ حال ہی میں بی بی سی نے وزیر اعظم مودی پر ایک دستاویزی فلم بنائی تھی، جس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
وزیر اعظم مودی پر 2002 کے گجرات فسادات پر مبنی بی بی سی کی دستاویزی فلم کی سیریز پر تنازعہ کے چند ہفتوں بعد ہی مودی حکومت کے اہلکاروں نے منگل کی صبح دہلی اور ممبئی میں برطانوی نشریاتی ادارے کے دفاتر میں چھاپے کی کارروائی کی .
حکمراں جماعت بی جے پی نے بی بی سی کو” بد عنوان ادارہ "قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی رپورٹنگ ”بھارت مخالف ہے اور وہ تعصب” سے کام لیتی ہے، اس لیے یہ کارروائی درست ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس کارروائی کو ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی قرار دیا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی اس پر بحث جاری ہے۔بی بی سی نے ایک ٹویٹ کرکے کہا کہ وہ انکم ٹیکس حکام کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں اور انہیں امید ہے کہ معاملے کو جلد ہی حل کرلیا جائے گا۔
حکام نے بی بی سی کے دفتر میں کیا کیا؟
مقامی وقت کے مطابق صبح تقریباً گیارہ بجے انکم ٹیکس کے درجنوں اہلکار پولیس کے ساتھ بی بی سی کے دفتر پہنچے اور پہلے ملازمین کے فون ضبط کیے گئے پھر تلاشی کا سلسلہ شروع کیا۔ اہلکاروں کا کہنا تھا کہ وہ ”بین الاقوامی سطح کے ٹیکس ضابطوں میں بعض خلاف ورزیوں ” کی تفتیش کے سلسلے میں یہ کارروائی کر رہے ہیں۔
اس دوران دفتر کو سیل کر دیا گیا اور متعدد صحافیوں اور دفتر کے ملازمین کے لیپ ٹاپ اور دیگر آلات کو بھی حکام نے ضبط کر لیا۔ ڈیوٹی پر آنے والے بیشتر ملازمین کوراستے سے ہی گھر واپس بھیج دیا ۔
اسی دوران ممبئی میں واقع بی بی سی کے دفتر پر بھی تقریباً ایسی ہی کارروائی کی گئی اور دوپہر بعد آنے والے ملازمین کو کہا گیا کہ وہ گھر سے کام کریں۔
اطلاعات کے مطابق حکام نے کئی دستاویزات بھی ضبط کر لیں اور وہاں موجود صحافیوں کے فون اور لیپ ٹاپ چھین لیے گئے۔ اس کارروائی کے دوران دفاتر کو سیل کر دیا گیا اور ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ اس کی تفصیلات کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں۔
تاہم ٹیکس حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ایک قسم کا سروے تھا اور تلاشی نہیں ہے نیز یہ کہ فون بعد میں واپس کر دیے جائیں گے۔
سیاسی جماعتوں کا رد عمل
انکم ٹیکس کے حکام کی اس کارروائی کے دوران ہی حکمراں جماعت بی جے پی کے ایک ترجمان گورو بھاٹیہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس کا یہ کہہ کہ دفاع کیا کہ بی بی سی ”ایک بد عنوان” ادارہ ہے، جو، زہریلی رپورٹنگ سے ملک کے خلاف” سازشیں کرتا ہے۔”
بی جے پی کے ترجمان نے کانگریس پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس کارروائی کی مذمت کرنے کو بھی یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ انہیں حکام کی کارروائی کو مکمل کرنے دینا چاہیے اور عدالت کے فیصلے کا انتظارکرنا چاہیے۔
تاہم اپوزیشن کانگریس نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقیدی دستاویزی فلم بنانے کی وجہ سے اس ادارے کو نشانہ بنا رہی ہے۔
پارٹی کے رہنما جے رام رمیش کا کہنا تھا”ادھر(پارلیمان میں) ہم اڈانی-ہنڈن برگ تنازعے کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) سے تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں، اور وہاں حکومت بی بی سی کا محاصرہ کر رہی ہے۔ جب کسی کی بربادی کا وقت قریب ہوتا ہے، تو وہ غلط فیصلے کرنے لگتا ہے۔”
ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: ”بی بی سی کے دہلی دفتر پر انکم ٹیکس کے چھاپے کی رپورٹیں ہیں۔ واہ، واقعی میں؟ کتنی غیر متوقع بات ہے۔”
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے بھی بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی پر تنقید کرتے ہوئے اسے ”نظریاتی ایمرجنسی” کا آغاز قرار دیا۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا، ”جب کوئی حکومت بے خوفی کے بجائے خوف اور جبر کے لیے کھڑی ہو، تو ہر کسی کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا انجام قریب ہے۔”
حال ہی میں بی بی سی نے وزیر اعظم نریندر مودی پر دستاویزی فلم جاری کی تھی، جس میں سن 2002 میں گجرات کے مسلم کش فسادات میں اس وقت کے ریاستی وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے کردار پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں