سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نےالیکشن کمشنروں کی تقرری کے تعلق سے کچھ ایسے زبانی تبصرے کئے ہیں جن سے مرکزی حکومت دہل گئی ہو گی۔ بنچ نے الیکشن کمشنروں کی تقرری کے پروسیس اور ان کی تقرری کے لئے سپریم کورٹ کولیجیم جیسےسسٹم کی ضرورت کے تحت داخل کی گئی پٹیشنوں پر شنوائی کرتے ہوئے بدھ کو زبانی طور پر کہا کہ ملک کو ایک ایسے چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) کی ضرورت ہے جو وزیراعظم کے خلاف بھی کارروائی کر سکے اور اس معاملے میں بالکل نہ ہچکچائے۔عدالت نے مرکزی حکومت سے گزشتہ ہفتے مقرر کئے گئےالیکشن کمشنر(ای سی) کے انتخاب کے طریقہ کار کی وضاحت کرنے کو بھی کہا بلکہ کورٹ نے مرکزی حکومت سے وہ فائل ہی طلب کرلی جس کے تحت مرکزی حکومت نے ارون گوئل کو چند روز قبل ہی الیکشن کمشنر مقرر کیا ہے۔واضح ر ہے کہ اس تعلق سے عرضی گزاروں میں سے ایک کے وکیل پرشانت بھوشن نے بنچ کو بتایا کہ کس طرح ارون گوئل کو الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد تو بنچ نے مرکز پر سوالوں کی بوچھار کردی۔
جسٹس کے ایم جوزف کی سربراہی والی بنچ
جسٹس کے ایم کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے کہا کہ ہمیں ایک سی ای سی کی ضرورت ہے جو ہر طرح سے کارروائی کرنے کے معاملے میں آزاد ہو ۔ ان کی تقرری کا سسٹم بالکل شفاف ہو لیکن یہاں معاملات مختلف نظر آرہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس بنچ میں جسٹس اجے رستوگی، جسٹس انیرودھ بوس، رشی کیش رائے اور سی ٹی روی کمار شامل ہیں۔ بنچ نے حکومت کے وکلاء کو مثال دیتے ہوئے کہا کہ مثال کے طور پر فرض کریں کہ وزیر اعظم کے خلاف کچھ الزامات ہیں اور سی ای سی کو کارروائی کرنی ہے لیکن سی ای سی کمزور ہے تو وہ کوئی کارروائی نہیں کرے گا ۔ بنچ نے مرکز کے وکیل سے پوچھا کہ کیا یہ نظام کی مکمل خرابی نہیں ہے۔ اسی لئے ہم کہہ رہے ہیں کہ سی ای سی کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہونا چا ہئے اور اسے آئینی طور پر خود مختار بھی ہونا چا ہئے۔ بنچ نے کہا کہ یہ وہ پہلو ہیں جن پر آپ (مرکز کے وکیل) کو غور کرنا چاہئے کہ ہمیں سی ای سی کو منتخب کرنے کے لئے ایک آزاد بڑے ادارے کی ضرورت کیوں ہے۔
سیاستدانوں پر تنقید
بنچ نے زبانی طور پر کہا کہ مختلف کمیٹیاں کہتی ہیں کہ الیکشن کمشنروں کی تقرری کے سلسلے میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے اور سیاستداں بھی اس کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن کچھ نہیں ہوتا بلکہ معاملے کو اسی طرح ٹال دیا جاتا ہےمگر اب ہم اس تعلق سے کوئی نہ کوئی اہم فیصلہ کریں گے۔
مرکز کی نمائندگی اہم وکلاء نے کی
آئینی بنچ میںمرکز کی نمائندگی اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمانی، سالیسٹر جنرل تشار مہتا اور ایڈیشنل سالیسٹر جنرل بلبیر سنگھ نے کی۔ بنچ نے مرکز کے وکیل سے یہ بھی کہا کہ وہ الیکشن کمشنر کی تقرری کے عمل کو ظاہر کرے۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ کنونشن کے مطابق الیکشن کمشنر کی تقرری کرتے وقت ریاست اور مرکزی حکومت کے تمام سینئر بیوروکریٹس اور افسران کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور اس کی سختی سے پیروی کی گئی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ تقرریاں کنونشن کی بنیاد پر کی جاتی ہیں اور سی ای سی کے پاس الگ سے تقرری کا کوئی عمل نہیں ہے۔ اس پر جسٹس رستوگی نے کہا کہ الیکشن کمشنر کی تقرری میں شفاف طریقہ کار ہونا چا ہئے اوروہ بھی ایسا کہ کوئی بھی انگلی نہ اٹھاسکے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے دو دن پہلے ہی کسی کو الیکشن کمیشن کے عہدے پر تعینات کیا ہے، ان کی تقرری میں اختیار کیا گیا طریقہ کار بتائیں۔اس موقع پر اے جی نے جواب دیا، تو کیا عدالت یہ کہہ رہی ہے کہ اسے وزراء کی کونسل پر اعتماد نہیں ہے؟ اس پر جسٹس رستوگی نے کہا کہ ہم اپنے اطمینان کے لئے تفصیل مانگ رہے ہیں۔
کمیٹی بنانے کا مشورہ
اس دوران یہ مطالبہ بھی ہوا کہ الیکشن کمشنرس کی تقرری کا کام سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، وزیر اعظم اور لوک سبھا میں حزب مخالف لیڈر کی کمیٹی کو سونپا جانا چاہئے۔ بنچ نے بھی اس سے کسی حد تک اتفاق کیا اور کہا کہ اس کمیٹی میں چیف جسٹس کی موجودگی ضروری ہو ایسا کوئی انتظام کیا جانا چاہئے۔ واضح رہے کہ اس معاملہ پر جمعرات کو بھی سماعت کا امکان ہے۔