جو بائیڈن بطور امریکی صدر انڈونیشیا کے شہر بالی میں پیر کو پہلی بار چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
یہ دونوں رہنما ایک ایسے وقت میں ملاقات کر رہے ہیں جب تائیوان، تجارت اور روس کے حوالے سے دونوں ممالک کے تعلقات تلخی کے دور سے گزر رہے ہیں۔
جی 20 گروپ لیڈر کانفرنس میں یہ دونوں رہنما 11 سال بعد آمنے سامنے ہوں گے۔
ان دونوں رہنماؤں کی ملاقات کو اہم اور دلچسپ سمجھا جا رہا ہے کیونکہ حال ہی میں تائیوان میں امریکہ کی کھلی حمایت کے دوران چین نے تائیوان کے قریب فوجی مشقوں کے ذریعے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ نے چین کے لیے کئی جدید ٹیکنالوجی چپس کی برآمد بھی روک دی کیونکہ امریکہ کو شک تھا کہ چینی فوج ان چپس کے ذریعے نئے جدید نظام تیار کر رہی ہے۔
آج ہونے والی یہ ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب شی جن پنگ چین میں تیسری بار سپریم لیڈر منتخب ہوئے ہیں۔
ایسے میں یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ سربراہی اجلاس اس بات کا مظہر ثابت ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات کس طرح کے ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرین جین پیئر نے ایک بیان میں کہا: ‘دونوں رہنما مذاکرات کو برقرار رکھنے اور ان میں گہرائی پیدا کرنے کی کوششوں پر بات کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی ذمہ دارانہ طریقے سے دونوں ممالک کے درمیان مقابلہ جاری رکھتے ہوئے مشترکہ مفادات، بطور خاص بین الاقوامی چیلنجز پر ایک ساتھ کام کرنے کے بارے میں بات کریں گے۔’
شی جن پنگ اور جو بائيڈن
دونوں رہنماؤں کی برسوں بعد ہونے والی ملاقات کیسے ہوگی؟
نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بالی میں جی 20 ممالک کے سربراہی اجلاس سے قبل امریکہ اور چین کی یہ ملاقات سرد جنگ کے دوران ہونے والی ملاقات جیسا احساس دلا رہی ہے۔
اس ملاقات کا مقصد تنازع کو کم کرنا اور دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ بنیاد تلاش کرنا ہوگا۔
کنگز کالج لندن میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہرش پنت کا کہنا ہے کہ ’یہ ملاقات کوئی ڈرامائی تبدیلی لانے والی نہیں ہے، دو اقتصادی سپر پاورز ملاقات کر رہے ہیں جن کے درمیان سرد جنگ 2.0 جیسی صورتحال ہے۔‘
پنت کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی بات کریں گے اور سرخ لکیر کھینچیں گے اور یہ سمجھنا چاہیں گے کہ شی جن پنگ ان چیزوں پر کیا سوچتے ہیں۔
دہلی کے فور سکول آف مینجمنٹ میں چین کے امور کے ماہر ڈاکٹر فیصل احمد کا خیال ہے کہ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے تعلقات میں نرمی لانے کی کوشش کی جائے گی۔
ڈاکٹر فیصل احمد کہتے ہیں: ’تائیوان کے بارے میں امریکہ اپنا موقف تبدیل نہیں کرنے والا ہے، لیکن اب امریکہ کوئی ایسی نئی بات نہیں کرے گا جس سے چین اور اس کے درمیان کسی قسم کی کشیدگی بڑھے۔ امریکہ چین کے ساتھ تعلقات میں آنے والی تلخی کو کم کرنا چاہتا ہے۔‘
شی جن پنگ تیسری بار چین کے سربراہ منتخب ہوئے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ میں بھی وسط مدتی انتخابات ہو چکے ہیں۔ اب دونوں رہنما سٹریٹجک اہمیت کے مسائل پر آرام سے بات کر سکتے ہیں۔
تائیوان کے علاوہ تجارت، ٹیکنالوجی، میری ٹائم سکیورٹی وغیرہ پر دونوں ممالک کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔
ہرش پنت کا خیال ہے کہ اس ملاقات سے کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔شی جن پنگ جب بائیڈن سنہ 2011 میں جن پنگ سے ملے تھے.اگست سنہ 2011 میں جو بائیڈن نے اس وقت کے امریکی صدر براک اوباما کی انتظامیہ میں نائب صدر رہتے ہوئے چھ دن کے لیے چین کا دورہ کیا تھا جس میں انھوں نے شی جن پنگ سے پانچ بار ملاقاتیں کی تھیں۔.جاپان سے شائع ہونے والے اخبار نکی ایشیا نے لکھا ہے کہ شی جن پنگ نے بائیڈن کے دورے کے چھ ماہ بعد ہی امریکہ کا دورہ کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس میں انھوں نے بائیڈن سے ملاقات کی اور اس کے بعد بائیڈن انھیں اس وقت کے صدر سے ملاقات کے لیے اوول آفس لے گئے۔