کویتی قومی اسمبلی کے اسپیکر مرزوق الغنیم نےعالمی برادری کی جانب سےدنیا میں جاری تنازعات کےحوالے سے دہرا معیار اپنانے کی مذمت کرتے ہوئے بین پارلیمانی یونین (آئی پی یو)سے اسرائیلی وفد کو نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سنیچرکےروز انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں آئی پی یو کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مرزوق الغنیم کاکہنا تھا کہ کویت کسی بھی قسم کے قبضے کا مخالف ہے انہوں نے ۳۰؍سال قبل عراقی فوج کے خلیج فارس پر حملے کا حوالہ بھی دیا۔ان کا سوال تھا کہ ’’روسی وفد کو آئی پی یو سے نکالنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے جو چند دن یا ہفتےپہلے شروع ہوئی تھی، اور اسرائیلی مندوبین کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا جن کی حکومت ۶۰؍سال سے زیادہ عرصے سے فلسطین پر قابض ہے؟‘‘ انہوںنے مزید کہا کہ ’’لہٰذا یہ ایک دوہرا معیار ہے جسے میں نہیں سمجھتا کہ آئی پی یو کے صدر قبول کریں گے۔‘‘کویت خطے کے بعض عرب ممالک کےبرعکس اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا سخت مخالف ہے، جنہوں نے حالیہ برسوں میں قابض حکومت کےساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کیے ہیں۔گزشتہ سال مئی میں، کویت کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر ایسے بلوں کی منظوری دی تھی جو تل ابیب حکومت کے ساتھ کسی بھی معاہدے یا تعلقات کو معمول پر لانے کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔
کویت کے ۳۷؍قانون سازوں نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات(یو اے ای) کے درمیان معمول کے معاہدے کو مسترد کر دے۔اسرائیل مخالف جذبات کویت میں ان دنوں عروج پر ہیں۔ امریکی تھنک ٹینک، واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئرایسٹ پالیسی کے ۲۰۱۹ءمیںکرائے گئے ایک سروے نے ظاہر کیا کہ ۸۵؍ فیصد کویتی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کرتے ہیں۔
ستمبر۲۰۲۰ءمیں، متحدہ عرب امارات اور بحرین نےاسرائیل کے ساتھ معمول کے معاہدے پر دستخط کیےتھے۔ مراکش اور سوڈان نے بعد میں اسرائیلی حکومت کے ساتھ بھی اسی طرح کے معاہدوں پر دستخط کیے۔ ابراہم معاہدے کو سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورمیں امریکہ نے آگے بڑھایا تھا۔فلسطینیوں نے ان معاہدوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ’پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ اور اپنے مقصد کے ساتھ ’خیانت‘ قرار دیا تھا۔