حجاب تنازع پر کرناٹک ہائی کورٹ نےاپنا فیصلہ سنادیا ہے۔ عدالت عالیہ نے اڈوپی ضلع سے تعلق رکھنے والی مسلم طالبات کی جانب سے داخل کی گئیں متعدد عرضیوں کو خارج کرتے ہوئے اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پہننے یا سر ڈھانپنے پر عائد پابندی کو برقرار رکھا۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس دکشت اور جسٹس جے ایم قاضی کی بنچ نے اس معاملہ پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ’’ خواتین کا حجاب پہننا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے۔ اس لئے اس معاملے میں کوئی راحت نہیں دی جاسکتی ۔‘‘ یاد رہے کہ اُڈوپی کی کچھ طالبات نے کرناٹک ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرتے ہوئے کرناٹک حکومت کے اس حکم کو چیلنج کیا تھا جس میں اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ طالبات نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ انہیں کلاس کے اندر بھی حجاب پہننے کی اجازت دی جائے، کیونکہ یہ انکی مذہبی آزادی کا حصہ ہے۔ عدالت عالیہ نے طالبات کی عرضی خارج کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسکول کا یونیفارم پہننے سے انکار نہیں کر سکتیں۔
عدالت نے ۳؍ سوال قائم کئے
کرناٹک ہائی کورٹ نے اسکولوں اور کالجوں میں کلاسیز کے اندر حجاب پہننے پر پابندی کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ حجاب اسلام کا لازمی جز نہیں ہے اور اس پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ ہائی کورٹ نے مسلم طالبات کی جانب سے دائر کی گئیں تمام عرضیاں خارج کر دیں۔ہائی کورٹ کی بنچ نے اس معاملہ میں ۱۵؍ دنوں تک سماعت کی اور گزشتہ مہینے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ عدالت نے اس معاملہ میں تین سوالوں کے جواب دیئے۔ پہلا سوال یہ کہ آیا حجاب پہننا اسلام کا لازمی جز ہے؟ عدالت نے اپنے جواب میں کہا کہ مسلم خواتین کا حجاب پہننا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے۔ دوسرا سوال یہ کہ آیا اظہار رائے کی آزادی اور حق رازداری کے تحت حجاب پہننا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے؟ اس کے جواب میں عدالت نے کہا کہ اسکول یونیفارم کے تعین پر طلبا اعتراض ظاہر نہیں کر سکتے۔ اسکولی یونیفارم کا تعین ریاستی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ معاملہ کی سماعت کے دوران تیسرا سوال یہ اٹھایا گیا کہ آیا کرناٹک حکومت کی جانب سے ۵؍ فروری۲۰۲۲ء کو جو حکم نامہ جاری کیا گیا ہے وہ من مانے طور پر جاری کیا گیا ہے اور کیا یہ حکم نامہ آئین کے آرٹیکل ۱۴؍ اور ۱۵؍ کی خلاف ورزی کرتا ہے؟ اس کے جواب میں عدالت نے کہا کہ چونکہ ریاستی حکومت کو اس حکم نامہ کو جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے لہٰذا اسے من مانی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے کہا کہ عرضی گزار ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کر پائے کہ حکومت نے من مانے طور پر فیصلے پر عمل درآمد کیا ہے۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے اہم نکات
۱۲۹؍صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت نے کئی مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔عدالت کے اس حکم نامے کو جلد ہی عدالت کی ویب سائٹ پر عام کیا جائے گا۔ فیصلے کے تناظر میں چند اہم نکات یہ ہیں۔ حجاب کی تاریخ معلوم کرنا مشکل ہے۔ وقت کے ساتھ مختلف مذہبی اور تہذیبی اثرات اس میں شامل ہوتے گئے ہیں۔ عدالت عالیہ نے یہ بھی پرکھا کہ کیا نوکری کرتے وقت حجاب پہننا اسلام کے ضروری مذہبی عمل کا حصہ ہے۔ اس بابت ہائی کورٹ نے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ایک ضروری مذہبی روایت کیا ہے۔ کیا حجاب اسلام کا جزو لا ینفک ہے؟ کیا یہ آئینی حق ہے؟ کیا ڈریس کی پابندی آئینی حق کی خلاف ورزی ہے؟ عدالت نے غور و خوض کیا کہ کیا کرناٹک حکومت کا منڈیٹ (ڈریس کمپلسری) آئین کے تقاضوں پر عمل درآمد کرتا ہے۔ عدالت نے مذہبی یقین کو قائم رکھنے اور غیر متفق ہونے سمیت’ اس میں کئی مشکل عناصر شامل ہیں‘ جیسی سطور کا حوالہ دیا۔ ہائی کورٹ نے یہ واضح کیا کہ قرآن مقدس کو اسلامی قوانین کی بنیاد مانا جا جاتا لیکن اس میں مسلم خواتین کے حجاب پہننے کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔عدالت نے کہا کہ قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہےکہ مسلم خواتین کو حجاب پہننا چا ہئے۔ اس کے بعد عدالت نے کہا کہ تمام طلبہ کو اگر درسگاہ میں یونیفارم ہے تو اس کی پابندی کرنی ہو گی اور یہ لازمی ہے۔
عرضی گزاروں نے کیا کہا ؟
درسگاہوں میں حجاب پر پابندی کے خلاف پٹیشن داخل کرنے والی طالبات میں سے ایک عالیہ اسدی نے کہا کہ ’’ہم اس فیصلے سے سخت مایوس ہیں۔ ہمیں انصا ف نہیں ملا ہے۔ ہم حجاب کے بغیر کالج نہیں جائیں گے اور یہ بات بالکل طے ہے۔‘‘ عالیہ نے مزید کہا کہ انہوں نے اس معاملے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان کے وکلاء جلد ہی سپریم کورٹ میں اس معاملے پر پٹیشن داخل کریں گے ۔
ایک طالبہ سپریم کورٹ سے رجوع
کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ آتے ہی کرناٹک کی ہی ایک طالبہ نبا ءناز نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کردی ہے۔ یہ طالبہ ان ۵؍ طالبات میں شامل نہیں ہے جنہوں نے کرناٹک ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی تھی ۔