اترپردیش میں بی جے پی کے دوبارہ اقتدار سنبھالتے ہی مسلم نوجوانوں کی گرفتار کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یوپی اے ٹی ایس نے سوشل میڈیا پر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں دیوبند سے ایک نوجوان کو گرفتار کیا ہے جبکہ اس لے دیگر دو ساتھیوں کے خلاف پیشگی امتناعی کاروائی کی گئی ہے۔ ان لوگوں کے خلاف الزام ہے کہ یہ سوشل میڈیا پر منافرت پھیلایا کرتے تھے ساتھ ہی لوگوںکو جہاد پر اکسانے کی کوشش کر رہے تھے۔ حتیٰ ان پر جہاد کی ٹریننگ لینے کیلئے پاکستان جانے کی تیاری کا بھی الزام ہے ۔ یوپی اے ٹی ایس کے ترجمان نے یہاں بتایا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے اس طرح کی اطلاعات موصول ہورہی تھیں کہ کچھ افراد سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعہ شدت پسندی اور ملک مخالف نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ یہ لوگ مختلف طبقات کے درمیان سماجی ہم آہنگی کونقصان پہنچانے کیلئے متعدد مذہبی مقامات پر دھماکہ بھی کرسکتے ہیں۔ترجمان نے بتایا کہ اطلاعات کی بنیاد پر اے ٹی ایس نے پیر کو دوپہر ڈیڑھ بجے ضلع سہارنپور کےتاریخی شہر دیوبند میں واقع محلہ خانقا کے دارالعلوم چوک کے پاس ایک ہوسٹل میں مقیم انعام الحق کو گرفتار کیا ہے جس کا تعلق جھارکھنڈ سے ہے۔ اس کا پورا نام انعا م الحق امتیاز میاں ہے اور وہ جھارکھنڈ کے ضلع گریدھی میں واقع پٹنہ گاوں کا رہنے والا ہے۔ دیوبند میں وہ ایک ہوسٹل میں اپنے دو ساتھیوں محمد فرقان علی اور نبیل خان کے ساتھ رہتا تھا ۔اے ٹی ایس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ابتدائی جانچ میں پتہ چلا ہے کہ انعام الحق نہ صرف یہ کہ جہاد سے متعلق ویڈیو یوٹیوب پر شیئر کرتا تھابلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیتا تھا۔ اس کےکسی ایسے شخص کے ساتھ تعلقات تھے جس کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا۔ اور انعام اس کی مدد سےٹریننگ کیلئے پاکستان جانے والا تھا۔
اے ٹی ایس نے صرف انعام الحق کو گرفتار کیا ہے اس کے ساتھ نبیل اور فرقان پر حکم امتناعی کے تحت کارروائی کی گئی ہے یعنی انہیں کہیں آنے جانے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ کارروائی آئین کی دفعہ ۱۰۸؍ کے تحت کی گئی ہے۔ جبکہ مزید تحقیقات جاری ہے۔ اے ٹی ایس کا کہنا ہے کہ مسلسل شکایتیں ملنے کے بعد انعام الحق کوپہلے ۱۲؍ مارچ کو پوچھ تاچھ کیلئے بلایا گیا۔ کافی دیر پوچھ تاچھ کے بعد اس سے ۱۳؍ مارچ کو صبح ۱۱؍ بجے اپنا موبائل اور یوٹیوب چینل کی تفصیل اور دستاویز لے کر آنے کیلئے کہا گیا۔ ۱۳؍ تاریخ کو پھر انعام الحق سے پوچھ تاچھ ہوئی جس میں اے ٹی ایس کے دعوے کے مطابق یہ معلوم ہوا کہ انعام انٹرنیٹ سے ایسے ویڈیو ڈائون لوڈ کرتا ہے جو جہاد پر ’اکساتے‘ ہیں پھر انہیں ایک مخصوص ایپ کے ذریعے ایڈیٹ کرکے اپنے یوٹیب چینل پر اپ لوڈ کیا کرتا تھا۔ اس کے ویڈیو دیکھ کر مہاراشٹر سے درانی نام کے ایک شخص نے اس سے رابطہ کیا اور بتایا کہ وہ ایک ’جہادی ‘ ہے ۔ انعام نے خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی ایک ’جہادی‘ بننا چاہتا ہے۔
اے ٹی ایس ک دعوے کے مطابق اسی درانی نے انعام کا رابطہ کشمیر کے کسی عمرنامی شخص سے کروایا جو مبینہ طور پر لشکر طیبہ کارکن ہے اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ انعام کو ہتھیار وغیرہ سپلائی کر سکتا ہے جس کے ذریعے وہ مذہبی مقامات پر حملہ کرکے ملک کے حالات خراب کر سکتاہے۔ ساتھ ہی انعام کو ایک واٹس گروپ جوائن کروایا گیا جس کے ایڈمن پاکستان میں رہنے والے لوگ تھے۔ اے ٹی ایس نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے مہاراشٹر کے درانی اور کشمیر کے عمر نامی شخص کے تعلق سے کیا کارروائی کی ہے یا انہیںگرفتار کرنے کی کیا تیاری کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ انعام الحق کو جس علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے وہاں پولیس اکثر چھاپہ مار کر غیر قانونی طریقے سے رہنے والے بنگلہ دیشی افراد کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔ لیکن اس بار دعویٰ کیا گیا ہے کہ اے ٹی ایس نے ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث نوجوان کو گرفتار کیا ہے۔ اس تعلق سے مقامی افراد کو کوئی خبر نہیں ہے کہ وہاں کیا ہوا۔ البتہ لوگ اتنا جانتے ہیں کہ ہوسٹل میں رہنے والے کسی نوجوان کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ اس پوری کارروائی کے تعلق سے نیوز ایجنسیوں نے اے ٹی ایس ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے۔ اب تک اے ٹی ایس کے کسی اہم عہدیدار نے اس تعلق سے کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اے ٹی ایس معاملے کی چھان بین کر رہی ہے ۔ مزید تحقیقات کے بعد دیگر انکشافات کئے جائیں گے۔