پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوسرے مرحلے کے پہلےدن دونوں ایوانوں میں کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے شدید احتجاج کیا جس کی وجہ سے کارروائی دن بھر کیلئے ملتوی ہوگئی۔ کشمیر کے تعلق سے بجٹ میں ضمنی مطالبات پیش کئے جانےپر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ علاحدہ بجٹ کیلئے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں سے صرف جموں کشمیر ہی کا انتخاب کیوں کیاگیا؟ اپوزیشن نے حکومت پر اس بات کیلئے بھی تنقید کی کہ اس نے اگست۲۰۱۹ء میں جموں کشمیر کی ہیئت بدلتے ہوئے جو وعدے کئے تھے اور قوم کے روبرو جو یقین دہانیاں کرائی تھیں، وہ پوری طرح ناکام ہوگئی ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے لوک سبھا میں دوپہر کے کھانے کے وقفے کے بعد بجٹ اور ۲۳۔۲۰۲۲ء کیلئے گرانٹس کے مطالبات اور جموں کشمیر کیلئے ۲۲۔۲۰۲۱ءکے ضمنی مطالبات پیش کئے تھے۔ اس پر کانگریس کے سینئر لیڈر منیش تیواری اور ریولیوشنری سوشلسٹ پارٹی (آر ایس پی) کے این کے پریم چندرن نے گفتگو کرتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی۔ انہوں نے سوال کیا کہ کسی بھی یونین ٹیریٹری کا بجٹ پارلیمنٹ میں کیوں پاس کیا جا رہا ہے؟ اور اگر حکومت نے ایسا کچھ نیا شروع کیا ہے تو کیا اس نے دیگر یونین ٹیریٹریوں کا بھی بجٹ بنایا ہے؟اس موقع پرپریم چندرن نے حکومت سےلداخ کے بجٹ کے بارے میں بھی سوال کیا۔
اس پر حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے درمیان کافی بحث ہوئی۔ بعد ازاں حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ جس یونین ٹیریٹری کے قانون ساز ایوان معلق حالت میں ہیں، ان کے بجٹ پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے گی۔ انہوں نے ضمنی مطالبات سے متعلق بحث پر اپوزیشن کے اعتراضات کو بھی مسترد کردیا۔
بحث کا آغاز کرتے ہوئے منیش تیواری نے اس بات پر بھی اعتراض کیا کہ انہیں ایوان میں بحث سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ قبل بجٹ پیپر موصول ہوئےہیں۔ ایسے میں کسی بھی انسان کیلئے بجٹ کے اس قدر طویل دستاویزات کو پڑھنا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگست۲۰۱۹ء میں جموں کشمیر کو تقسیم کرنے اور مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کے فیصلے سےمتعلق جو دلائل دیئے گئے تھے،۳۳؍ ماہ گزر جانے کے بعد بھی اس کے نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ مشرقی لداخ کی صورتحال انتہائی حساس ہے۔ چینی فوج ملک کی سرزمین میں گھس چکی ہے۔ ادھر پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ روس کے بعد سرحد پر صورتحال پیچیدہ ہو گئی ہے۔ چین اور روس کے درمیان مشترکہ معاہدہ طے پا گیا ہے۔ حکومت کو اس کی فکر کرنی چاہئے۔ انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ کیا۲۰۱۹ء سے دہشت گردی کی سرگرمیوں میں مقامی نوجوانوں کی شمولیت میں اضافہ ہوا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ انتہائی تشویشناک بات ہے۔انہوں نے کہا کہ اگست ۲۰۱۹ء میں وزیر اعظم مودی اور اکتوبر۲۰۲۰ء میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں یقین دہانی کرائی تھی کہ جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا لیکن اب۲۰۲۲ء آگیا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ اس کا بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا جارہا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ یہ یقین دہانی کب پوری ہوگی؟
انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر میں صنعت کی ترقی میں کمی کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نےمزید کہا کہ حکومت نے اگست۲۰۱۹ء میں جس ’نظریاتی مقصد‘ کے تحت چلی تھی، وہ بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں۷۳؍ فیصد محکمہ داخلہ سے متعلق ہے، یعنی سیکوریٹی پر اتنا بڑا خرچ اس بات کا ثبوت ہے کہ حالات بہتر نہیں ہوئے ہیں۔
اس کے بعدبی جے پی کی طرف سے اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ بی جے پی لیڈر جگل کشور شرما نے بتایا کہ اگست۲۰۱۹ء سے پہلے ریاست میں دفعہ۳۷۰؍ کا غلط استعمال ہوتا تھا، نوجوانوں کی نوکریاں سیاسی لوگوں کے پاس جاتی تھیں، رشوت ستانی عروج پر تھی، ترقی کا پیسہ گھروں میں خرچ ہوتا تھا، ترقیاتی منصوبے برسوں لٹکے رہتے تھے اور جموں کشمیر میں جموں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا لیکن آج جموں کشمیر کی مجموعی اور مربوط ترقی ہو رہی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ مودی حکومت میں جموں کشمیر کی قسمت کھل گئی ہے۔ اوروہاں ہمہ جہت ترقی ہو رہی ہے۔
بی جے پی لیڈر نےاس موقع پر اپنی حکومت کے دعوؤں کا پٹارہ کھولتے ہوئے کہا کہ ڈی ڈی سی اور وی ڈی سی کے انتخابات ہو چکے ہیں، جس کی مدد سے پہلی بار پنچایتوں کو بااختیار بنایا گیا ہے۔ پرانی سیاسی جماعتوں کا غلبہ ختم ہو چکا ہے۔سرکار کی جانب سے کورونا کے دور میں قابل تحسین کام کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم مودی نہ ہوتے تو ملک اور جموں کشمیر کا کیا ہوتا؟