یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے روس کے دونوں اہم مطالبات ماننے کا واضح اشارہ دیتے ہوئے روسی صدر سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔ امریکی ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں زیلینسکی نے کہا کہ وہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کا مزید مطالبہ نہیں کریں گے کیوں کہ وہ اس پر بہت دنوں سے غور کررہے ہیں اور اب فی الحال اس سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ زیلنسکی نے روسی صدر پوتن کا ایک اور اہم مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین ،آزادی کا اعلان کرنے والے اپنے دو علاقوں کی قانونی حیثیت پر بھی گفتگو کے لئے تیار ہے جنہیں روس آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرچکا ہے۔یوکرینی صدر نے مزید کہا کہ یوکرین کے نیٹو میں شمولیت کے معاملے پر میں کافی پہلے اپنے قدم پیچھے لے چکا ہوں، میں یہ سمجھ چکا ہوں کہ نیٹو یوکرین کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، وہ متنازع معاملات سے خوفزدہ ہے اور اسے روس کا سامنا کرنے سے ڈر لگتا ہے۔ اس لئے میں خود بھی اب نیٹو میں شمولیت کے حق میں نہیں ہوں۔
زیلنسکی نے نیٹو کی رکنیت کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ وہ ایسے ملک کا صدر ہونا گوارا نہیں کریں گے جو کسی چیز کیلئے گھٹنوں پر بیٹھ کر کسی سے بھیک مانگے۔یوکرین کے صدر نے روس کے دوسرے اہم مطالبے پرگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ علاحدگی پسند تحریک والے علاقوں کے معاملے پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں، وہ صرف ان علاقوں میں سیکوریٹی کی ضمانت چاہتے ہیں۔زیلنسکی نے کہا کہ لوہانسک اور ڈونیٹسک کو روس کے علاوہ کسی اور ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے لیکن ہم اس پر گفتگو کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں یہ علاقے کیسے اپنا انتظام چلائیں گے۔ یوکرینی صدر کے مطابق میرے نزدیک سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان علاقوں میں موجود وہ لوگ جو یوکرین کا حصہ رہنا چاہتے ہیں وہ وہاں کیسے زندگی گزاریں گے؟لہٰذا یہ معاملہ محض ان علاقوں کو تسلیم کرنے سے زیادہ پیچیدہ ہے۔صدرزیلنسکی نے کہا کہ ہم مزید الٹی میٹم کیلئے تیار نہیں ہیں۔ روسی صدر کو بات چیت شروع کرنی چا ہئے تاکہ مسئلہ کا حل نکل سکے اور خطے میں امن و امان قائم ہو سکے ۔