یوکرین پر روسی حملے کے درمیان جہاں ایک طرف تباہی مچی ہوئی ہے ، ہر طرف آہ و بکا ہے تو دوسری طرف ہمت ، بہادری اور عزم کی متعدد داستانیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ ایسی ہی ایک کہانی اس ۱۱؍ سالہ یوکرینی بچے کی ہے جس نے جنگ زدہ ملک میں تنہا ایک ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرکے سبھی کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ ساتھ ہی لوگوں کو اپنی ہمت کی داد دینے پر بھی مجبور کردیا ہے۔ یہ بچہ جس کا نام حسن ہے ، جنوبی یوکرین کے جنگ زدہ زاپوریزیا کا رہنے والا ہے۔ اس علاقے پر گزشتہ ہفتے ہی روس نے قبضہ کیا ہے۔ حسن کے والدین کو اپنے بیمار رشتہ دار کی تیمار داری کے لئے زاپو ریزیا میں ہی ٹھہرنا پڑا جبکہ انہوں نے اس کی حفاظت کے خیال سے اسے سلوواکیہ کی سرحد پر ٹرین کے ذریعے روانہ کردیا۔ حسن کی والدہ نے زادِ راہ کے طور پر اسے ایک پلاسٹک کا بیگ ، پاسپورٹ ، کچھ نوٹ اور اس کے ہاتھ پر ٹیلی فون نمبر لکھ کر دیا۔ حسن نے سلوواکیہ کی سرحدپر ٹرین سے اترنے کے بعد وہاں موجود سیکوریٹی اہلکاروں کو اپنے ہاتھ پر لکھا نمبر دکھایا جس کے ذریعے انہوں نے اس کے دیگر رشتہ داروں سے رابطہ کیا۔ساتھ ہی زاپو ریزیا میں موجود اس کی والدہ کو بھی پیغام بھجوادیا کہ حسن خیر و عافیت سے پہنچ گیا ہے۔
اس کی ہمت پر سلوواکیہ کی وزارت داخلہ اور سرحد پر موجود دیگر اہلکار سخت حیرت زدہ ہیں ساتھ ہی ساتھ وہ اسے ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ کچھ اہلکاروں نے تو اسے سلوواکیہ کے کچھ بچوں سے ملوایا بھی اور بتایا کہ ہمت اور حوصلہ حسن جیسا ہونا چاہئے۔ وزارت داخلہ نے فیس بک پر اس کی تصویر اور کہانی شیئر کرتے ہوئے یہ پیغام بھی لکھا کہ ’’ جنگ کے اس دور میں جب ہرکوئی بدحواس ہے اور افراتفری کا شکار ہے اس بہادر بچے حسن نے نہ صرف ہوش کا مظاہرہ کیا بلکہ ایک ہزار کلومیٹر کا طویل سفر تنہا طے کرکے ہم سبھی کو پیغام دیا ہے کہ ہم مشکل سے مشکل حالات میں بھی ہمت نہ ہاریں ۔ ‘‘ اس پیغام کے بعد سوشل میڈیا پر اس بچے کی مدح میں کئی پیغامات آئے جن میں سے بہت سے جذباتی بھی ہیں۔ ایک پیغام میں لکھا ہے کہ’’ ہمیں اس بچے کی ہمت کی داد تو دینی ہو گی لیکن اس ماں کے بارے میں بھی سوچنا ہو گا کہ کس دل سے ماں نے جنگ کے حالات میں اپنے بچے کو خود سے جدا کیا ہو گا ۔ ہمیں ایسی ہی مائوں کے لئے فتح کی دعا کرنی ہو گی ۔‘‘ ایک اور فیس بک صارف نے لکھا کہ ’’ جنگ کتنا بڑا المیہ ہے اس کا اندازہ حسن کے سفر سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔جس عمر میں بچے والدین کے بغیر محلے سے دور جانے کے بارے میں بھی خیال نہیں کرتے، اس عمر میں حسن جیسے سیکڑوں بچوں کو اپنے گھر بار سے محض اس لئے دور ہونا پڑا کیوں کہ ایک ملک کا تاناشاہ انہیں اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔‘‘ ایک اور فیس بک یوزر نے حسن کو مبارکباد دیتے ہوئےکہا کہ اس کی کہانی پڑھ کر اور اس کی تصاویر دیکھ کر دل بھر آیا ۔