پاکستان کےقبائلی شہر پشاور کے تاریخی قصہ خوانی بازار کے علاقے کوچہ رسالدار کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران زبردست دھماکے کے نتیجے میں ۵۷؍ افراد شہید ہوگئے جن میں ۲؍ پولیس اہلکار شامل ہیں۔ ابتدائی رپورٹوں کے مطابق حملہ آور نے تیزی سے آگے پہنچ کر دوسری صف میں بم دھماکہ کیا جس میں زخمی ہونے والوں کی تعداد ۱۹۶؍ ہے۔ ان میں سے متعدد کی حالت نازک ہے۔
اموات میں اضافے کا اندیشہ
دھماکا ایک تنگ گلی میں واقع جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران ہوا۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ انتہائی شدید تھا اور اموات میں اضافے کا قوی اندیشہ ہے۔ پاکستانی اخبار ایکسپریس نے اپنی ویب سائٹ پر دی گئی خبر میں بتایاہے کہ شہر میں بچاؤ نظام کی بہترین سروس ہے لیکن گلی تنگ ہونے کی وجہ سے بچاؤ کارکنوں کو آپریشن میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ جس وقت خبر لکھی جارہی ہے اس وقت مسجد سے متصل گلی کے باہر ۳۰؍ سے زائد ایمبولینس کھڑی تھیں لیکن گلی میں ایک وقت میں صرف ایک ایمبولینس ہی جاسکتی ہے۔ نمازیوں پر کئے گئے اس حملے سے پورے پشاور میں اور بطور خاص قصہ خوانی بازار میں افراتفری مچ گئی ہے۔
خود کش حملے کی تصدیق
مقامی پولیس عہدیدار وحید خان نے اس بات کی تصدیق کی کہ ’’ یہ ایک خودکش حملہ ہے۔حملہ آور نے سب سے پہلے نمازیوں پر فائرنگ کی اور پھر خود کو دھماکے سے اڑالیا۔‘‘ دوسری جانب پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان نے کہا کہ پشاور دھماکے میں جاں بحق ہونے والےمتعدد افراد کی لاشیں اسپتال پہنچ چکی ہیںجبکہ بیشتر زخمیوں کو بھی وہیں لے جایا گیا ہے۔ زخمیوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے جس کے پیش نظر اسپتال میں بھی میں ریڈ الرٹ اور اضافی طبی عملہ طلب کرلیاگیاہے۔
حملہ آوروں کی تعداد ۲؍ تھی
شہر کے پولیس افسر محمد اعجاز خان نے بتایا کہ قصہ خوانی بازار کے کوچہ رسالدار میں واقع شیعہ جامع مسجد میں نماز جمعہ کے وقت ۲؍ حملہ آوروں نے گھسنے کی کوشش کی لیکن وہاں ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں نے انہیں روک دیا جس کے بعد حملہ آوروں نے فائرنگ شروع کردی جس میں ایک پولیس جوان جاں بحق ہو گیا اور دوسرا زخمی ہو گیا۔ بعد میں اس نے بھی دم توڑ دیا۔ اس کے بعد حملہ آوروں نے نماز جمعہ کے دوران ہی خود کو دھماکے سے اڑالیا۔
متاثرہ علاقے میں کرفیو نافذ
پولیس افسر کے مطابق اس حملے میں دونوں حملہ آوروں نے خو د کو اڑایا ہے یا ایک نے وہ تفتیش کے بعد سامنے آئے گا لیکن یہ واضح ہے کہ یہ خود کش حملہ تھا۔ دھماکے کے بعد علاقے میں افراتفری پھیل گئی جس پر قابو پانے کیلئے وقتی طور پر کرفیو نافذ کردیا گیا۔ مقامی افراد نے زخمیوں کو اسپتال پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے قریبی اسپتالوں میں بھی ایمر جنسی نافذ کردی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے پشاور دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت دی اور واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔اب تک اس دھماکے کی کسی تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی دھماکے کے نتیجے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کااظہار کیاہے۔