اترپردیش میں چھٹے مرحلے کے تحت پوروانچل خطے کے۱۰؍اضلاع کی۵۷؍سیٹوں پر ہونے والے انتخابات کیلئے انتخابی مہم منگل کی شام ۶؍ بجے ختم ہوگئی۔ان سیٹوں پر جمعرات کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔جن اضلاع میں۳؍مارچ کو ووٹ ڈالے جائیں گے، ان میں امبیڈکر نگر، بلرام پور، سدھارتھ نگر، بستی، سنت کبیر نگر، مہاراج گنج، گورکھ پور، کشی نگر، دیوریا او ربلیا شامل ہیں۔چیف الیکشن افسر اجے کمار شکلا نے بتایا کہ اس مرحلے میں۲؍کروڑ ۱۴؍ لاکھ رائے دہندگان۶۷۶؍امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔
سابقہ مراحل میں مین اپوزیشن سماج وادی پارٹی سے سخت چیلنجز کا سامناکرنے کے بعد حکمراں جماعت بی جے پی کو امید ہے کہ پوروانچل خطے میں اسے اپنے حریف پر سبقت حاصل ہوگی لیکن سماجوادی پارٹی کا خیال ہے کہ گزشتہ پانچ مراحل کی طرح یہاں بھی اسے بالا دستی حاصل رہے گی۔ حالانکہ بی جے پی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے اور اس مرحلے کیلئے تو نہایت سخت انتخابی مہم چلائی ہے۔ وزیراعظم مودی،وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، بی جے پی صدر جے پی نڈا اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس کیلئے دن رات ایک کردیا ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ ہی بی جے پی کی اتحادی جماعتیں اپنا دل اور نشاد پارٹی کے لیڈروں نے بھی متعدد ریلیاںکیں۔
دوسری طرف سماج وادی پارٹی سربراہ اکھلیش یادو، کانگریس جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی اوربی ایس پی سپریمو مایاوتی نےبھی اپنے امیدواروں کی حمایت میں عوامی ریلیوں سے خطاب کیا۔یہ مرحلہ سابقہ مرحلے سے زیادہ دلچسپ ہے۔اسی مرحلے میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بذات خود گورکھپور صدر سیٹ سے انتخابی میدان میں ہیں۔ وہ پہلی بار اسمبلی انتخاب لڑرہے ہیں۔ یہاں پر ایس پی نے سابق بی جے پی ریاستی صدراوپیندر شکلا کی بیوی شبھاپتی شکلا کو انتخابی میدان میں اتار کر مقابلے کو کافی دلچسپ بنادیا ہے۔وہیں آزاد سماج پارٹی کے صدر چندر شیکھر آزاد بھی یوگی کے خلاف انتخابی میدان میں ہیں۔
اس مرحلے میں یوگی کے۶؍وزیروں کا وقار بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ وزیر زراعت سوریہ پرتاپ شاہی ضلع کشی نگر کی پتھر دیوا سیٹ سے انتخابی میدان میں ہیں۔انہیں سابق وزیر اور ایس پی امیدوار برہما شنکر ترپاٹھی سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔اسی طرح سے وزیر صحت جے پرتاپ سنگھ کو ضلع سدھارتھ نگر کی بانسی اسمبلی سیٹ سے ایس پی امیدوار نوین اور بی ایس پی کے ہری شنکر سے چیلنج درپیش ہے۔وزیر تعلیم(آزادانہ انچارج) ستیش چندر دیویدی ضلع سدھاتھ نگر کی اٹوا سیٹ سے انتخابی میدان میں ہیں جہاں سے انہیں سابق اسمبلی اسپیکرا ور ایس پی کے سینئر لیڈر ماتا پرساد پانڈے سے سخت مقابلے کا سامنا ہے جبکہ وزرائے مملکت میں سے اننت سروپ شکلا بلیا کی بیریا سیٹ سے انتخابی میدان میں ہیں اور جے پرکاش نشاد دیوریا کی رودر پور سیٹ سے قسمت آزما رہےہیں۔انہیں کانگریس کے سابق ایم ایل اے اور قومی ترجمان اکھلیش پرتاپ سنگھ سے سخت چیلنج مل رہا ہے۔
اس مرحلے میں رائے دہندگان الیکشن سے عین قبل بی جے پی کو خیر آباد کہہ کر ایس پی میں شمولیت اختیار کرنے والے۲؍ سابق کابینی وزیر دارا سنگھ چوہان اور سوامی پرساد موریہ کے بھی انتخابی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔سوامی پرساد موریہ اپنی روایتی سیٹ پڈرونہ چھوڑ کر فاضل نگر سے قسمت آزمارہے ہیںجبکہ دارا سنگھ ضلع مئو کی گھوسی اسمبلی سیٹ سے انتخابی میدان میں ہیں۔سابقہ مرحلے کی طرح یہ مرحلے بھی کانگریس کی وقار کی لڑائی ہے۔ اس کے ریاستی صدر اجئے کمار للو ضلع کشی نگر کے تمکوہی راج اسمبلی حلقے سے انتخابی میدان میں ہیںجبکہ دیگر معروف چہروں میں باہو بلی قرار دیئے جانے والےہری شنکر تیواری کے بیٹے ونئے شنکر تیواری گورکھپور کی چلو پار سیٹ سے ایس پی کی ٹکٹ پر انتخابی میدان میں ہیں۔وہ بی ایس پی چھوڑ کر ایس پی میں شامل ہوئے ہیں۔ بی جےپی کے نائب ریاستی صدر دیا شنکر سنگھ بلیاکی صدر سیٹ سے سابق وزیر اور ایس پی امیدوار ناراد رائے کے سامنے تال ٹھونک رہے ہیں۔قتل کے پاداش میں عمر قید کی سزا جھیل رہے امر منی ترپاٹھی کے بیٹے امن منی ترپاٹھی بی ایس پی کے ٹکٹ پر مہاراج گنج کی نوتنواں سیٹ سے اور وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے میڈیا صلاح کار شلبھ منی ترپاٹھی دیوریا سیٹ سے انتخابی میدان میں ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ۲۰۱۷ء کے اسمبلی انتخابات میں ان ۵۷؍ سیٹوں میں سے۴۶؍ پر بی جے پی نے جیت درج کی تھی جبکہ بی ایس پی کو۴؍، ایس پی کو۳؍اور کانگریس، اپنا دل اور سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کو ایک ایک،جبکہ ایک سیٹ ملی تھی۔اسی طرح ایک سیٹ پر آزاد امیدوار نے بھی جیت کا پرچم بلند کیا تھا۔ سیاسی ماہرین کے مطابق اس مرحلے میں بی جے پی اپنا وقار بچائے رکھنے کیلئے بہت زیادہ جدوجہد کررہی ہے لیکن اسے کامیابی ملتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اسے متعدد ایسے مسائل کا سامنا ہے جو پارٹی کی توقعات پر پانی پھیر سکتے ہیں۔ یہاں پر بھی آوارہ مویشیوں کا مسئلہ بی جے پی کے سامنے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ ان موضوعات کو اپنی انتخابی ریلیوں میں لگاتار اٹھارہےہیں۔ اس خطے میں ذات پات کی صف بندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بی ایس پی کو بھی خارج کرنا کوئی دانشمندی نہ ہوگی۔ا س مرحلے کی متعدد سیٹوں پر دلت اور پسماندہ طبقات فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر بی ایس پی نے زیادہ محنت کی تو بی جے پی کیلئے مزید مسئلہ ہوسکتا ہے۔