روس کی جانب سے یوکرین پر کئے گئے حملے کے بعد سے عالمی سطح پر تیل کے داموں میں اضافہ ہوا ہے۔ اطلاع کے مطابق تیل کے دام فی بیرل ۱۰۰؍ ڈالر سے بھی اوپر پہنچ گئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں خدشہ ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ لیکن سعودی عرب نے وضاحت کی ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ تیل کے داموں میں اضافہ ہو ساتھ ہی یوکرین جنگ کے سبب عالمی بازار پر ہونے والے اثرات کو زائل کرنے کی کوششوں کی بھی یقین دہانی کروائی ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے ایک روز قبل فرانس کے صدر ایمانویل میکرون سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ اطلاع کے مطابق یہ گفتگو خاص طور پر یوکرین جنگ کے سبب عالمی سطح پر ہونے والے اثرات پر محیط تھی، اس میں تیل کے داموںکا بھی تذکرہ آیا جس کے تعلق سے عالمی برادری فکر مند ہے۔ واضح رہے کہ اس جنگ میں صرف تیل کے داموں میں اضافے کا خدشہ نہیں ہے بلکہ تیل اور گیس کی قلت کا خطرہ بھی لاحق ہے۔ کیونکہ روس کی جانب سے یورپ کی طرف جانے والی گیس پائپ لائن بھی جنگ کے دوران بند ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر گیس کی قلت پیدا ہونے کی صورت میں اس کے داموں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس تعلق سے تیل پیدا کرنے والے ۱۱؍ اہم ممالک نے گزشتہ دنوں میٹنگ بھی کی تھی۔ اب تک اس بات کی وضاحت نہیں ہو سکی ہے کہ جنگ کے طول پکڑنے کی صورت میں تیل اور گیس کی قلت کا مقابلہ کرنے کیلئے ان ممالک کے پاس کیا حکمت عملی ہے یا پھر اس کے داموں پر کنٹرول رکھنے کیلئے انہوں نے کون سے اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اتنا ضروری ہے کہ تمام ممالک تیل کے داموں میں اضافے کے خدشے سے فکرمند ہیں۔ محمد بن سلمان نے ایمانویل میکرون سے ہوئی گفتگو کے دوران یقین دہانی کروائی ہے کہ سعودی عرب بالکل بھی نہیںچاہتا کہ یوکرین جنگ کے سبب عالمی سطح پر تیل کے داموں میں اضافہ ہو۔ ساتھ ہی انہوں نے باور کروایا کہ ان کی حکومت پیٹرول مارکیٹ کو مستحکم دیکھنا چاہتی ہے۔ ایسی صورت میں جو بھی مناسب اور لازمی قدم ہوگا سعودی عرب ضرور اٹھائے گا۔ سعودی ولی عہد نے کہا کہ ان کا ملک ’ اوپیک پلس ‘ معاہدے کا پابند رہے گا۔ واضح رہے کہ اوپیک پلس معاہدے کے مطابق تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم ’ اوپیک‘ کے تمام ممالک اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ اگر عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا یا تیل کی قلت پیدا ہوئی تو وہ اپنے یہاں تیل کی پیداوار بڑھائیں گے تاکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کا بحران پیدا ہونے سے روکا جائے۔ عام طور پر جنگوں کے مد نظر رکھتے ہوئے ہی اس معاہدے کو عمل میں لایا گیا تھا۔ فی الحال یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ اوپیک میں شامل دیگر ممالک کا اس تعلق سے کیا موقف ہے۔ واضح رہے کہ روس خود تیل کی پیداوار والا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ ساتھ ہی وہ یورپی ممالک کو پائپ لائن کے ذریعے بڑے پیمانے پر گیس فراہم کرتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر روس کے اوپر پابندیاں عائد کی گئیں جیسا کہ ہر ایک ملک کی جانب سے اعلان کیا جا رہا ہے تو وہ بھی جوابی کارروائی کے طور پر تیل کی پیدوار کو عالمی مارکیٹ میں اتارنے سے روک سکتا ہے۔ اور پائپ لائن کو بند کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے فی الحال تیل کو دام جو کنٹرول میں ہیں وہ آسمان تک پہنچ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی عالمی سطح پر تیل کی قلت کے سبب بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے اور بڑی بڑی صنعتوں پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔ فی الحال دنیا کی اہم صنعتی کمپنیوں کے مالک عالمی برادری سے یہی امید کر رہے ہیں کہ وہ کسی طرح اس بحران کو روکنے کی کوشش کریں۔ کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جس سے تیل کی قلت بھی نہ ہو اور دام بھی قابو میں رہیں۔ اس کیلئے جنگ کا ٹلنا ہی سب سے اہم راستہ ہے۔ واضح رہے کہ عرب ممالک کی جانب سے اب تک روس کے خلاف یا یوکرین کی حمایت میں کوئی واضح پیغام جاری نہیں کیا گیا ہے۔ بیشتر تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک ہی ہیں جو کہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کے روس کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں اور معاشی روابط بھی مضبوط ہیں۔ ایسی صورت میں وہ کسی بھی طرح کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتے ، فی الحال تیل کے داموں میں کا اثر عوام پر نہیں پڑا ہے۔