یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روسی حملے کے دوسرے دن اپنے عوام کی جان بچانے کیلئے روس کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔ جمعہ کو ولادیمیر زیلنسکی نے ایک یو ٹیوب ویڈیو کے ذریعے اعلان کیا کہ وہ ولادیمیر پوتن سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ روسی زبان میں جاری کئے گئے اپنے پیغام میں اانہوں نے کہا ’’ میں روس کے صدر سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں، پورے یوکرین میں جنگ ہو رہی ہے۔ آئیے ! مذاکرات کی میز پر بیٹھیں تاکہ لوگوں کی جان بچائی جا سکے۔‘‘ اسی ویڈیو میں یوکرین کے صدر نے اپنے فوجیوں کو بھی مخاطب کیا اور ان سے اپنے اپنے محاذ پر ڈٹے رہنے کی اپیل کی۔ ولادیمیر زیلنسکی نے کہا’’ آپ اپنے قدم جمائے رکھیں!‘ ‘ انہوں نے کہا ’’ آپ ہی ہمارے سب کچھ ہیں، آپ ہی ہماری ریاست کے محافظ ہیں،آپ اپنی جگہ پر ڈٹے رہیں۔‘‘ واضح رہے کہ فوجیوں کے نام یہ پیغام انہوں نے یوکرینی زبان میں دیا۔ یاد رہے کہ اس پیغام سے قبل ولادیمیر زیلنسکی نے عالمی برادری کے نام بھی ایک پیغام جار کیا تھا جس میں انہوں نے شکایت کی تھی عالمی برادری نے انہیں جنگ میں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’جنگ کے دوران عالمی برادری کو جس طرح یوکرین کی مدد کرنی چاہئے تھی، اس طرح مدد نہیں کی گئی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ ہم روس سے ڈرنے والے نہیں ہیں لیکن عالمی برادری نے ہمیں جنگ کیلئے بالکل تنہا چھوڑ دیا ہے۔ ‘‘ یوکرینی صدر نے کہا ’’ آج صبح (جمعہ) تک ہم تنہا روسی فوجیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ جبکہ گزشتہ روز کی طرح آج بھی دنیا کے طاقتور ممالک دور سے بیٹھے دے رہے ہیں۔‘‘ زیلنسکی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ’’ میں نے ۲۵؍ سے زائد نیٹو لیڈروں سے بات کی اور ان سے نیٹو میں شامل ہونے کے تعلق سے پوچھا مگر خوف کے مارے ان میں سے کسی نے بھی جواب نہیں دیا۔ نہ ہی اب تک کوئی مدد کیلئے آیا۔ روس مذاکرات کیلئے تیار مگر شرائط کے ساتھ ادھر روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرینی صدر کی اس پیش کش کا مثبت جواب دیا لیکن مشروط۔ ولادیمیر پوتن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ صدر پوتن ، یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ یوکرین نیٹو میں شامل ہونے کا خیال ہمیشہ کیلئے دل سے نکال دے۔ ساتھ انہوں نے کہا کہ یوکرینی فوج ہتھیار ڈال دے اور علاحدگی پسندوں کے علاقے انہوں واپس کر دے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ روس نے مفاہمت کے بجائے اپنی شرط منوانے کیلئے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بیلاروس کے شہر منسک میں یہ ملاقات ہو سکتی ہے۔ اس سے قبل روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروئوف نے بھی اسی طرح کی شرط رکھی ہے۔ لاروئوگ نے کہا کہ یوکرین سے بات اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب یوکرین کے فوجی اپنے ہتھیار ڈال دیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ روس چاہتا ہے کہ یوکرین کے عوام آزاد زندگی گزاریں اور اپنی روایتوں کو کھل کر اپنا سکیں۔‘‘ روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’ ہم نہیں چاہتے کہ روس کے پڑوس میں ’نازی نما‘ ( ہٹلر جیسے ) لوگ حکومت کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ یوکرین کی موجودہ حکومت کو جمہوری حکومت تسلیم نہیں کرتے اور علاحدگی پسندوں کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔