روس کے یوکرین پر حملے کے بعد حالات مزید دگرگوں ہوتے جارہے ہیں۔ اس وقت روسی افواج یوکرین کے دارالحکومت کیف میں پیش قدمی کرتی چلی جا رہی ہیں اور آخری اطلاع موصول ہونے تک وہ یوکرینی پارلیمنٹ سے محض ۹؍ کلومیٹر کی دوری پر موجود تھیں۔ یہ صورتحال جہاں یوکرین حکومت کیلئے تشویشناک ہے وہیں عالمی برادری کیلئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ بیشتر عالمی نیوز ایجنسیوں نے جلد ہی’ سقوط کیف ‘ کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ اس دوران ہلاکتوں کی تعداد پہلے روز کے مقابلے ۳؍ گنا زائد ہو چکی ہے۔ اس وقت یوکرین کے دارلحکومت کیف کا عالم یہ ہے کہ وہاں کی گلیوں میں لڑائی چھڑ گئی ہے اور یوکرین کی ’ناتواں‘ فوج روس کے انتہائی تربیت یافتہ فوجیوں کو روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہی ہے لیکن روس کی جانب سے جس انداز میں اور جس پیمانے پر حملے کئے جارہے ہیں ان کے سامنے یوکرین کا کچھ دن بھی ٹک پانا مشکل ہے۔
سقوط کیف ، حالات ابتر
اطلاع کے مطابق روسی حملےکے دوسرے دن بھی یوکرینی فوج نے حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کی لیکن وہ روسی افواج کو پیش قدمی سے روک نہیں پائی حتیٰ کہ روسی فوجی دارالحکومت کیف میں پارلیمنٹ کی عمارت سے۹؍ کلو میٹر کے فاصلے تک پہنچ گئے ہیں۔ امکان ہے کہ جمعہ کی شب میں ہی وہ پارلیمنٹ پر قبضہ کرلیں گے ۔
میزائیلوں کی بارش
روسی افواج کی اتنی تیز رفتارکامیابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ صرف زمینی لڑائی نہیں لڑ رہی ہیں بلکہ میزائل حملوں کے ذریعے بھی راستہ صاف کررہی ہیں۔ جمعہ کی صبح روسی افواج نے کیف کی سرحد سے پورے شہر پر میزائلوں کی برسات کردی تھی جس کی وجہ سے پورے شہر میں جا بجا بم دھماکےسنائی دیے جبکہ میزائل گرنے کی وجہ سے کئی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ شہر میں بجلی پہلے ہی منقطع ہے۔ ایسے میں جو حال عوام کا ہو رہا ہو گا اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔
زمینی افواج کی پیشقدمی
ساتھ ہی زمینی دستوں نے شہر کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا ہے۔ اسی دوران یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی ٹی وی پرآئے اور انہوں نے اطلاع دی کہ جمعرات اور جمعہ کے حملوں میں ۱۳۷؍ افراد اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ادھر یوکرین کی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی فوج نے روس کے ایک ہزار اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ہےجبکہ روس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کیف کے ایئر پورٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ زیلنسکی نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ روس کو روکنے کیلئے مزید سخت اقدام کریں۔
یوکرین کے عوام بے حال
ان حملوں کی وجہ سے یوکرین میں عوام کو مصیبتوں کا سامناکرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت نے انہیں محفوظ مقامات پر پناہ لینے کی ہدایت دی ہے۔ لوگوں نے میٹرو اسٹیشنوں اور سب وے میں ڈیرہ ڈالنا شروع کیا ہے لیکن ان کیلئے کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی اپنے آپ میں ایک دقت طلب مسئلہ بن گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کے امور سے متعلق ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ اب تک اس حملے کی وجہ سے ۱۰؍ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
پڑوسی ممالک کیلئے بھی مشکل
یوکرین کے پڑوسی ملک پولینڈ کی سرحد پر ہزاروں یوکرین کے ہزاروں باشندے جمع ہیں جو دراصل پولینڈ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ خبر لکھے جانے تک پولینڈ کی سرحد پر ۶؍ ہزار سے زائدافراد جمع تھے جبکہ مقامی ذرائع کے مطابق جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا اس تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ مقامی صحافیوں کی اطلاع کے مطابق یوکرین سے پولینڈ کی سرحد کی طرف جانے والے راستوں پر یوکرین کے باشندوں کو کوچ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ۔
ہنگری نے راستہ دیا
اس دوران پولینڈ نے سرحد پر اپنی فورس بڑھا دی ہے۔ یہ فورس یوکرین کے باشندوں کو روک نہیں رہی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ وہ انہیں پناہ لینے کی اجازت دیں گے لیکن اگر مجمع بڑھنے لگا اور دقتیں پیش آنے لگیں تو صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ ادھر ہنگری نے یوکرین سے متصل اپنی سرحد کھول دی ہے تاکہ یوکرین میں رہنے والے دیگر ممالک کے باشندے ہنگری کے راستے باہر نکل سکیں۔ ہنگری حکومت نے جنگ کے دوران پھنسے غیر ملکیوں کو یہ سہولت دینے کا اعلان کیا ہے کہ وہ ہنگری میں داخل ہو سکتے ہیں اور وہاں سے اپنے اپنے ملک کیلئے ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کر سکتے ہیں۔
روس پابندیوں کا جواب دے گا
روس نے کہا کہ وہ مغربی ممالک کی طرف سے لگائی گئی نئی پابندیوں کا جواب دیگا۔روسی صدارتی دفتر `کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ہم اس معاملے میں جوابی کارروائی کریں گے