کرناٹک ہائی کورٹ کی مکمل بنچ میں پیر کولگاتار ۷؍ ویں دن شنوائی میں حکومت نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو نہیں ہے۔ چیف جسٹس کے اس سوال پر حجاب تنازع میں حکومت کا کیا موقف ہے، اٹارنی جنرل نے ۵؍ فروری کے سرکاری حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے حجاب پر پابندی عائد نہیں کی ہے بلکہ طلبہ کو تعلیمی اداروں کے طے شدہ یونیفارم کی پابندی کیلئے کہاگیاہے۔
اس پر چیف جسٹس صاف صاف پوچھا کہ ’’آپ کا موقف کیا ہے؟ تعلیمی اداروں میں حجاب کی اجازت دی جاسکتی ہے یا نہیں؟‘‘اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’’حکومت کے حکم پر عمل درآمد کی ذمہ داری تعلیمی اداروں کی ہے۔‘‘ اس پر کورٹ نے پھر دریافت کیا کہ ’’یہ درخواست کی جارہی ہے کہ انہیں کالج کے طے شدہ یونیفارم کے رنگ کا ہی اسکارف پہننے کی اجازت دی جائے۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس پر آپ کا موقف کیا ہے؟فرض کیجئے کہ وہ دوپٹہ پہنتی ہیں جو یونیفارم کا ہی حصہ ہے تو کیا اس کی اجازت دی جاسکتی ہے؟‘‘ اس کا کوئی صاف جواب دینے کے بجائے اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’’میرا جواب یہ ہے کہ ہم نے (یونیفارم سے متعلق) کوئی چیز طے نہیں کی ہے۔ حکم میں تعلیمی اداروں کو مکمل اختیار ہے کہ وہ یونیفارم طے کریں۔ ‘‘ تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ یونیفارم میں مذہبی علامات شامل ہوں۔ اٹارنی جنرل پربھو لنگ نواڈگی نے کورٹ میں کہا کہ ’’اس سوال پر کہ کیا طلبہ کو ایسا لباس پہننے دیا جا سکتا ہے جو مذہبی علامت ہو، حکومت کا موقف یہ ہے کہ یونیفارم میں مذہبی علامات کو شامل نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس کا جواب اصولی طور پر کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ کی تمہید میں موجود ہے جو سیکولر ماحول کے فروغ کی وکالت کرتا ہے۔‘‘حکومت کے اس موقف پر کہ اس نے حجاب پر پابندی عائد نہیں کی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پھر اس بات کی ضرورت رہ جاتی ہے کہ کورٹ آرٹیکل ۲۵؍ کے پس منظر میں اس نکتے پر غور کرے کہ حجاب اسلام کا لازمی جزو ہے یا نہیں؟