سپریم کورٹ نے سی اے اے مخالف مظاہرین کو بہت بڑی راحت دیتےہوئے یوپی کی یوگی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ مظاہرہ کرنے والے افراد سے ہرجانہ کے طور پر وصول کی گئی رقم فوراً واپس کرے، ان مظاہرین کو جاری کئے گئے نوٹس رد کرے اور ان کی جائیدادوں پر کی گئی قرقی کو بھی ختم کرے۔سپریم کورٹ کے اس حکم سے مظاہرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ انہوں نے اسے نہ صرف انصاف کی فتح قرار دیا بلکہ یوگی سرکار کی تاناشاہی کیخلاف تازیانہ قرار دیا۔ یاد رہے کہ یوگی حکومت نے مظاہروں کے دوران عوامی املاک کو ہونے والے نقصان کی وصولی کے لئے ہرجانہ کے طور پر متعدد افراد کو ریکوری نوٹس جاری کیا تھا اور کئی مظاہرین سے پیسے بھی وصول لئے تھے جبکہ جنہوں نے ادا نہیں کئے انہیں ذلیل کرنے کے لئے ان کے پوسٹر اور بینر بھی سڑکوں پر لگوا دیئے تھے۔ اس کے خلاف نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا میں کافی لے دے ہوئی تھی اور یوگی سرکار پر تنقیدیں کی گئی تھیں۔
سپریم کورٹ کی سختی حا ل ہی میں سپریم کورٹ نے یوگی حکومت کو سخت سست کہتے ہوئے سی اے اے مخالف مظاہرین کو وصولی کے لئے بھیجے گئے تمام نوٹس کو واپس لینے کا حکم دیا تھا۔جسٹس چندر چڈ کی بنچ نے یوپی حکومت انتہائی سخت لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ اگر نوٹس واپس نہیں لئے گئے تو ہم انہیں رد کردیں گے اور اس کے بعد جو کارروائی ہو گی اس پر عمل کروائیں گے اور یہ کیسے کیا جائے گا وہ بھی ہمیں آتا ہے۔ سپریم کورٹ کے اتنے سخت تبصرے کے بعد یوگی حکومت نے نوٹس واپس لینے میں ہی عافیت جانی ۔ جس کے بعد جمعہ کو اتر پردیش حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس نے مظاہرین کو بھیجے گئے ۲۷۴؍وصولی کے نوٹس واپس لے لئے ہیں اوراس ضمن میں کی گئی کارروئی کو رد کردیا ہے۔
کورٹ نے مزید حکم جاری کیا جسٹس چندر چڈ اور جسٹس سوریہ کانت کی بنچ نے کہا کہ جب نوٹس واپس لے لئے گئے ہیں تو مناسب طریقہ کار پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر قرقی غیر قانونی طور پر کی گئی ہے اور حکم واپس لے لیا گیا تو قرقی کی کارروائی کو آگے بڑھانے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟ نیز جن لوگوں سے وصولی کی گئی ہے ان کو بھی رقم واپس کرنی ہوگی۔ اس پر بھی یوگی حکومت کو ہامی بھرنی پڑی۔
یوگی سرکار کی بہانے بازی
حالانکہ اس دوران یو پی کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل گریما پرساد نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وصولی کی رقم کو واپس کرنے کا حکم نہ سنایا جائےکیونکہ یہ رقم کروڑوں روپے میں ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوگا کہ انتظامیہ کی طرف سے کیا گیا پورا عمل غیر قانونی تھا! تاہم بنچ نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کی اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ تو سخت نا انصافی ہو گی کہ غیر قانونی طریقے سے وصول کئے گئے جرمانہ اور قرقی کی کارروائی کو تو تسلیم کیا جائے لیکن رقم یا جائیداد واپس نہ کی جائے۔ ایسا کوئی حکم نہیں دیا جاسکتا ۔ حکومت ہمارے احکام پر فوری طور پر عمل کرے ۔
پرویز عارف ٹیٹو کی عرضی پر سماعت تھی
عدالت پرویز عارف ٹیٹو کی طرف سے دائر عرضی پر سماعت کر رہی تھی، جس میں یوپی میں شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران عوامی املاک کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لئےمظاہرین کو ضلع انتظامیہ کی طرف سے بھیجے گئے نوٹس کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
متاثرین نے کیا کہا ؟
متاثرین میں شامل مذہبی رہنما و شیعہ چاند کمیٹی کے صدر مولانا سیف عباس نے اپنے ویڈیو پیغام میں اس فیصلے پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ سچ سچ ہےاور جھوٹ جھوٹ۔ بالآخر جیت سچ کی، انصاف کی اور عدل کی ہوتی ہے، جو اس کیس میں بھی ہوئی ۔ اسی طرح، ڈاکٹر سبطین نوری نے بھی اپنے پیغام میں کہا ہے کہ حکومت کی کارروائی سےا نہیںشدیدذہنی تکلیف پہنچی تھی کیونکہ انہوں نے کبھی بھی قانون ہاتھ میں نہیں لیاہے۔ صدف فاطمہ جو ان دنوں اپنی تشہیری مہم میں مصروف ہیں انہوں نے بھی اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے۔ ڈاکٹرپون رائو امبیڈکر بھی ان متاثرین میں شامل ہیں اور انہوں نے بھی اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے ۔
اس معاملے میںپروفیسر اپوروانند نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مظاہرین کے حق میں فیصلے دے کر اپنی غلطی درست کی ہے۔ ان کے مطابق جب جسٹس بوبڈے ملک کے چیف جسٹس تھے اس وقت ان کے سامنے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی کارروائی پر اعتراض کرتے ہوئے ایڈوکیٹ اندرا جے سنگھ اور دیگر نے یہ معاملہ پیش کیا تھا لیکن جسٹس بوبڈے نے کہا تھا کہ اگر آپ سڑک پر اتر رہے ہیں تو انصاف کے لئے ہمارے پاس مت آئیے۔ پروفیسر اپوروانند کے مطابق جسٹس بوبڈےکا یہ تبصرہ ایک طرح سے حکومتوں کو کھلی چھوٹ تھی کہ وہ مظاہرین کے خلاف جو چاہے کارروائی کرسکتی ہیں لیکن اب سپریم کورٹ نے اس غلطی کو درست کیا ہےاور مظاہرین کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔