بی ایم سی وارڈوں کی نئی حدبندی کے سبب ملاڈ (مغرب) میں اب ۹؍وارڈ ہوجائیں گے جبکہ پہلے ۸؍وارڈتھے ۔اس نئی حد بندی سے شہریوں کوفائدہ ہونے کی امیدہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہےکہ وارڈوںمیںجو فی الوقت ووٹروںکی تعداد میں بے ترتیبی ہے یعنی کہیںکم اورکہیں بہت زیادہ ، اس میںکسی قدر یکسانیت آجائے گی ۔ دوسرے یہ کہ وارڈبڑھائے جانے سے شہریوں کوسہولت ملنے میںآسانی ہوگی۔ اسے اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ وارڈ نمبر ۳۴؍میں تقریباً ۵۳؍ ہزار رائے دہندگان ہیں ، نئی حد بند ی کے بعدوہ کم ہوکر ۴۰؍ ہزار ہوجائیں گے اور ۱۰؍ ہزار رائے دہندگان کونئےوارڈ میںمنتقل کردیاجائے گا۔اسی طرح ملاڈ میں ایک وارڈ ایسا بھی ہے جس میں۶۰؍ہزار سے زائد ووٹرس ہیں، یہ ملاڈ کا سب سے بڑا وارڈبتایا جاتا ہے۔ اس میںسے بھی ۱۰؍ تا ۱۵؍ہزارووٹرو ں کو منتقل کیا جائے گا۔ اس کافائدہ یہ ہوگاکہ شہریوں کو پانی ،گٹر،سڑک اور دیگر سہولتیں آسانی سے مل سکیںگی۔
’’نئی حد بندی میںتمام باتیں ملحوظ رکھی جائیں‘‘
اس تعلق سے محمود احمدخان نامی مقامی شخص نے کہاکہ ’’ وارڈ بڑھائے جانے سے لوگوں کوفائدہ ہونے کی امید تو ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اسی اعتبار سے سہولیات فراہم کروائی جائیںکیونکہ محض نئی حدبندی ہی مسئلے کاحل نہیںہے ۔‘‘
ایک اور مقامی شخص عبداللہ عبدالعظیم انصاری نے کہاکہ ’’نئی حد بندی تو کی جارہی ہے اورآبادی کے لحاظ سے وارڈ بڑھائے جارہے ہیں لیکن اس میںبے ترتیبی کے سبب اس بات کا بھی امکان ہے کہ مسائل پیدا ہوں۔‘‘ انہوںنے بے ترتیبی کی یہ کہتے ہوئے نشاندہی کی کہ ’’کسی بھی وارڈ کے قریب کے حصوں کویکجا کیاجائے، دورکے علاقے کو نہیں۔‘‘
رام لکھن یادو نے کہاکہ’’یہ کام بی ایم سی نے شروع کیا ہے اور شہریوں سے مشورے اور اعتراضات بھی منگوائے ہیں،یہ اچھا ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے سیاسی فائدے کے لئے ووٹروں کو اس طرح سے کہیںتقسیم نہ کردیا جائے کہ ذات برادر ی کےاعتبار سے ان کے ووٹ بکھر جائیں جیسا کہ اسمبلی حلقوں کی حد بندی میں بعض علاقوں میں کیا گیا ہے۔‘‘ انہوںنے اس بات کا اعادہ کیاکہ ’’ یہ اچھی پیش رفت ہے لیکن شہریوںکو مکمل فائدہ اسی وقت ہوگاجب تمام چیزوں کوپیش نظر رکھتے ہوئے صحیح ترتیب سے عمل کیا جائے ۔‘‘