کرناٹک ہائی کورٹ میں حجاب تنازع پر جاری شنوائی کے دوران گزشتہ روز جہاں دیو دت کامت نے متاثرہ لڑکیوں کی جانب سے زوردار بحث کی وہیں بدھ کو کرناٹک کے سینئر ایڈوکیٹ اور پروفیسرروی ورما نے حجاب کے اس پورے تنازع کو صحیح تناظر میں دیکھنے کی اپیل کی اور اپنے منطقی دلائل کے ذریعےسبھی کو لاجواب کردیا۔ ان کی جانب سے بحث مکمل ہونے کے بعد ہائی کورٹ نے ایک مرتبہ پھر شنوائی جمعرات تک کے لئے ملتوی کردی۔
ایڈوکیٹ روی ورما کی زوردار بحث
ایڈوکیٹ روی ورما نے اپنی بحث کی شروعات اس سوال سے کی کہ آخرکرناٹک میں حجاب کو ہی نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے ؟ انہوں نے نہایت چبھتے ہوئے لہجے میں یہ سوال کیا کہ حجاب پر ہی تنازع کیوں کھڑا کیا جارہا ہے جبکہ مذہبی علامت تو سکھوں کی پگڑی بھی ہے ، ہندوئوں کی بندی(ٹیکہ)بھی ہے اور عیسائیوں کا گلے میں کراس پہننا بھی ہے۔ ساتھ ہی ہندو خواتین میں گھونگھٹ بھی عام ہے۔ پھر صرف مسلم خواتین کو نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے ؟ ایڈوکیٹ روی ورما نے پوچھا کہ کہیں اس کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا تو مقصد نہیں ہے؟ کہیں اس کے ذریعے مذہبی تفریق کو ہوا دینے کی کوشش تو نہیں کی جارہی ہے ؟ اس کے بعد انہوں نے کرناٹک حکومت کے ایجوکیشن ایکٹ کے ذریعے کرناٹک سرکار کے بخیے ادھیڑ دئیے ۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ ایجوکیشن ایکٹ میں کہیں پر بھی حجاب پر پابندی کی بات نہیں لکھی گئی ہے۔اس میں یہ درج ہے کہ اگر اسکول انتظامیہ کو طلبہ کا یونیفارم بھی تبدیل کرنا ہے تو انہیںکم از کم ایک سال پہلے نوٹس دینا پڑے گا۔ کیا ان تعلیمی اداروں نے ایسا کیا ؟ نہیں ۔
مسلم لڑکیوں سے تفریق پر سوال
ایڈوکیٹ روی ورما نے مسلم لڑکیوں سے تفریق کا سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کسی بھی اسکول میں یا کلاس روم میں بندی لگائی ہوئی لڑکی یا گلے میں کراس پہنی ہوئی لڑکی کو باہر نہیں کیا گیا صرف حجاب پہنی ہوئی لڑکی کو نشانہ بنایا گیا ؟ کیا یہ کھلی تفریق نہیں ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت کو فوری طور پر کسی نتیجے پر پہنچنا ہو گا کیوں کہ جس طرح سے مسلم لڑکیوں کو اسکول اور کالج کے گیٹ سے واپس کیا جارہا ہے وہ نہایت سنگین ہے اور بھیانک مستقبل کی گواہی دیتا ہے۔ انہوں نے مزید دلیل دی کہ ہائی اسکولوں اور کالجوں میں مسلم لڑکیوں کی تعداد ویسے ہی کافی کم ہے، اگر یہی سلسلہ برقرا ررہا تو ہم آبادی کے ایک بڑے حصہ کو تعلیم سے محروم کرنے کے مجرم کہلائیں گے ۔ ساتھ ہی یہ دستور کے آرٹیکل ۱۵؍ کی بھی خلاف ورزی ہو گی۔
ایڈوکیٹ یوسف مچھالہ نے بھی بحث کی
سینئر ایڈوکیٹ یوسف مچھالہ نے بھی اس معاملے میں پیش ہوتے ہوئے متاثرہ لڑکیوں کی جانب سے بحث کی اور یہ دلیل دی کہ مسلم لڑکیوں سے محض ان کے اسکارف یا حجاب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جاسکتی۔ انہوںنے کہا کہ مسلم لڑکیوں کو مذہب اور تعلیم میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ تعلیم سب کے لئے ضروری ہے اور اس میں حجاب مانع نہیں ہو تا ۔ یہ بات حکومت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے اور اسکول کالجوں کے انتظامیہ کو بھی ۔ ایڈوکیٹ مچھالہ کے دلائل کا سلسلہ جاری تھا کہ اس دوران چیف جسٹس اوستھی نے سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔
کئی کالجوں سے طالبات کو واپس کیا گیا
ریاست کے ایک اور سرکاری کالج نے ان طالبات کو واپس بھیج دیا ہے جو کلاس روم میں حجاب پہن کر داخل ہونا چاہتی تھیں۔ رپورٹس کے مطابق، شمالی کرناٹک کے وجے پورہ کے گورنمنٹ پی یو کالج میں پہلے حجاب پہننے کی اجازت تھی لیکن بدھ کو طالبات کو کلاس روم میں حجاب کے ساتھ داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔