امریکہ نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ روس یوکرین پر آئندہ چند ہفتوں میں حملہ کر سکتا ہے، جس کیلئے اس نے۷۰؍ فیصد تیاری بھی مکمل کر لی ہے، حالانکہ امریکی حکام نے اپنے الزامات سے متعلق شواہد پیش نہیں کئے ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ یہ معلومات خفیہ ذرائع سے حاصل ہوئی ہیں اور پختہ ہیں۔ امریکی حکام کے مطابق یوکرین پر روس حملہ کرنے کیلئے تیار ہے اور وہ جنگی تیاریوں کیلئے فروری کے وسط تک مزید بھاری ہتھیار اور سامان یوکرین کی سرحد منتقل کر سکتا ہے۔امریکی حکام نے دعویٰ کیا کہ۱۵؍ فروری سے مارچ کے اختتام تک روس سب سے زیادہ بھاری جنگی سازو سامان سرحدوں تک منتقل کرے گا۔ امریکہ حکام کا یہ بھی کہناتھا کہ معاملہ حساس ہونے کے سبب وہ میڈیا کو اس سلسلے میں مزید تفصیل فراہم نہیں کر سکتے۔ واضح رہے کہ روس نے یوکرین کی سرحد کے قریب ایک لاکھ سے زائد فوجی اہلکار مامور کئے ہیں لیکن روس نےیوکرین پر حملے کے خدشے کو مسترد کر دیا ہے۔
بڑے پیمانے پر حملہ اور قبضے کی تياری کا دعویٰ
امریکہ کے اتحادی ممالک بھی یہی کہنا ہے کہ روس يوکرین پر بڑے پیمانے پر حملہ اور قبضے کی تياری کررہا ہے مگرخبر لکھے جانے تک يہ واضح نہيں کہ واقعی ماسکو عملی طور پر ايسا کرنا چاہتا ہے يا نہيں؟ امريکی اہلکاروں نے خفیہ ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے تجزيے کی بنياد پر یہ انتباہ دیا ہے۔ ماسکو کے مخالفین کے مطابق روس نے ۲۰۱۴ء ميں کريميا کے خطے کو اپنے علاقے ميں ضم کر ليا تھا ۔ اس کے بعد سے آج تک وہ مشرقی يوکرین ميں علاحدگی پسندوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ ان دنوں روس نے يوکرین کی سرحد پر فوجی مامور کئے ہيں جس سے خطے میں جنگ کا خطرہ ہے۔ واضح رہےکہ اس معاملےپر گزشتہ کئی ماہ سے مغرب اور روس کے درمیان شديد اختلافات اور کشیدگی پائی جارہی ہے۔ امريکی خفیہ ادارے کی رپورٹ کے مطابق جس رفتار سے روسی فوجی دستے يوکرین کی سرحد پر جمع ہو رہے ہيں، فروری کے وسط تک وہاں مامور روسی فوجيوں کی تعداد ڈيڑھ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے، جو يوکرین پر کسی ممکنہ بڑے حملے کیلئے کافی ہے۔ یادر ہےکہ اس وقت ایک لاکھ ۱۰؍ ہزار روسی فوجی يوکرین سرحد پر مامور ہيں۔ امريکی خفیہ رپورٹ کے مطابق ايسے کسی ممکنہ حملے کی صورت ميں روس صرف دو دن کے اندر کيف حکومت کا تختہ پلٹ کر پورے ملک پر قابض ہو سکتا ہے۔ اس دوران ممکنہ طور پر۲۵؍ سے۵۰؍ ہزار شہری، ۵؍ سے۲۵؍ ہزار يوکرینی فوجی جبکہ ۳؍ سے۱۰؍ ہزار روسی فوجی ہلاک ہوسکتے ہيں۔ دريں اثناء امريکی صدر جو بائيڈن نے مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے اراکین کے دفاع کیلئے اپنے فوجی دستے پولينڈ بھجوائے ہيں جو سنیچر کو وہاں پہنچے۔ دوسری جانب روس نے بيلاروس سے جنگی مشقيں بھی شروع کر دی ہيں اور اسی وجہ سے اس کے کئی بٹالين کيف کے شمال کی طرف پولينڈ کی سرحد کے قریب مامور ہيں۔ امريکی انٹيلي جنس اس نتيجے پر پہنچی ہے کہ روس مختلف خطوں ميں مامور اپنے فوجيوں کی تعداد بڑھا رہا ہے۔ دو ہفتے قبل يوکرین کے شمال، مشرق اور جنوب ميں۶۰؍ روسی فوجی بٹالين مامور تھی، اس جمعہ کو ان کی تعداد۸۰؍ بٹالين تک پہنچ چکی تھی۔بحیرہ اسود ميں بھی روسی بحريہ مستحکم پوزيشن ميں ہے اور ديگر خطوں سے چند بحری جہاز اس جانب روانہ ہو چکے ہيں۔ ايسی اطلاعات بھی ہيں کہ روس نے يوکرین کے آس پاس جنگجو طيارے مامور کئے ہيں۔
اسی پس منظر ميں جمعرات کو امريکہ نے دعویٰ کيا تھا کہ اس کے پاس ايسے شواہد ہيں کہ ماسکو حکومت روسی فوجيوں پر يوکرین کی جانب سے ايک فرضی حملہ کرا کے اس کی ريکارڈنگ کرنا چاہتی تھی تاکہ اسے يوکرین پر حقيقی حملے کیلئے جواز کے طور پر پيش کيا جا سکے۔ يہ الزام پنٹاگن کے ترجمان جان کربی نے لگايا اور اسی کا تذکرہ محکمہ خارجہ کے ترجمان نيڈ پرائس نے بھی کيا مگر دونوں ہی اہلکاروں نے اپنے دعوے کے حق ميں ثبوت پيش نہيں کئے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کا اندیشہ
یوکرین میں فوجی تنازع میں شدت آنے کے سبب تقریباً۵۰؍ ہزار شہریوں کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ یہ اطلاع نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں سینئر امریکی حکام کے حوالے سے دی گئی ہیں۔رپورٹ میں سرکاری ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ۲۵ ؍ ہزار یوکرینی فوجیوں اور۱۰؍ ہزار روسی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوسکتی ہیں۔
جنگ سے متعلق بلومبر گ کی خبر
دریں اثناء خبر رساں ادارے بلومبرگ نےیوکرین پر روسی حملے کے عنوان سے ایک خبر شائع کی جسے چند گھنٹے ہی بعد غلط قرار دیتے ہوئے ہٹا دیا گیا اور بلومبرگ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس غلطی کے اسباب کی تفتیش کی جا رہی ہے۔
ماسکو کا ردعمل
دوسری جانب روس صدارتی پیلس کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے اس خبر پرردعمل ظاہر کیا۔ان کے بقول:’’ بلومبرگ کی جھوٹی خبریں ظاہر کرتی ہیں کہ امریکہ اور مغربی حکومتوں کے خیالات کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں؟ ایسی رپورٹیں ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔‘‘