گزشتہ کچھ دنوں میں، اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے تین وز یر، سوامی پرساد موریہ، دارا سنگھ چوہان اور دھرم سنگھ سینی نے استعفیٰ دے دیا ہے اور سماج وادی پارٹی (ایس پی) میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ ان کے ساتھ ہی بی جے پی کے کئی ایم ایل ایز بھی اسی راستے پر چل پڑے ہیں ۔امکان ہے کہ یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔ان کے بی جے پی چھوڑنے کی وجوہات اور اس کی انتخابی اہمیت کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ بی جے پی نے ہندو مسلم کشیدگی پیدا کرکے انتخابی جیت حاصل کی ہے، لیکن اب اسی کے ساتھ ایک اور بات سامنے آرہی ہے کہ پارٹی نے ہندوؤں میں ذات پات کے درمیان خلیج پیدا کرکے بھی اپنی کامیابی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کیہے۔ اس حکمت عملی کے تحت، پارٹی نے اتر پردیش میں اونچی ذات کے ووٹروں کے ساتھ غیر یادو پسماندہ ذاتوں،جاٹو برداری اور شیڈول کاسٹ کے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ لیا تھا۔
اس سماجی گٹھ جوڑ کیلئے بی جے پی نے دیگر پارٹیوں سے غیر یادو او بی سی، خاص طور پر انتہائی پسماندہ ذاتوں (ایم بی سی) کے لیڈروں کو اپنے ساتھ لیا تھا۔ ان میںسوامی پرساد موریہ، دارا سنگھ چوہان اور دھرم سنگھ سینی جیسے لیڈروں کا شمار ہوتا ہے۔ موریہ کا کشواہا، شاکیہ، سینی اور نونیا طبقے میں خاص اثر ہے۔ یہ ذاتیں پوروانچل، اودھ، بندیل کھنڈ، روہیل کھنڈ، برج اور مغربی اتر پردیش میں موجود ہیں اور الیکشن پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
اسی طرح دارا سنگھ چوہان کی انتخابی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ۲۰۱۵ء میں بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد انہیں پارٹی کے نیشنل او بی سی مورچے کا صدر بنادیا گیا تھا۔
اگرچہ اتر پردیش میں انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کے فوراً بعد بی جے پی چھوڑنے والے لیڈروں کا عمل شروع ہوگیا، لیکن ان کے پارٹی چھوڑنےکی قیاس آرائیاں گزشتہ سال جولائی ہی سے چل رہی تھیں۔ اس کی ۵؍ اہم وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ: حکومت مخالف رجحان اور عوام کے درمیان پائی جانے والی ناراضگی کے پیش نظر بی جے پی اپنے کئی موجودہ ایم ایل ایز کا ٹکٹ کاٹنے کا اشارہ دے چکی ہے۔ اس کی وجہ سے بیشتر لیڈروں بالخصوص اُن لیڈروں میں جو دوسری پارٹیوں سے بی جے پی میں آئے ہیں، ایک طرح کاخوف پیدا ہوگیا ہے۔ وہ اپنے لیڈروں (جن کے ساتھ وہ بی جے پی میں شامل ہوئے تھے) پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ ان کی امیدواری بچانے کیلئے پارٹی چھوڑ دیں اور کسی جیتنےو الی پارٹی میں شامل ہوں۔
دوسری وجہ: ریزرویشن پالیسی میں بار بار کی گئی ہیرا پھیری سے پسماندہ اور درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے۔ یہ طلبہ گزشتہ ایک سال سے لکھنؤ میں احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ ان وزیروں سے ریزرویشن پالیسی میں بار بار کی جانے والی ہیرا پھیری کی شکایت کرتے رہے ہیں۔ نوجوانوں میں پائی جانے والی اس ناراضگی نے ان کے لیڈروں میں خوف پیدا کردیا ہے کہ کہیں وہ اپنی حمایت ہی نہ کھو بیٹھیں۔
تیسری وجہ: ایم بی سی لیڈروں کی ایک دیرینہ شکایت رہی ہے کہ یادو برادری کے لوگ دیگر پسماندہ طبقے (او بی سی) کے زیادہ تر ریزرویشن کو کھا جاتی ہے۔بی جے پی نے او بی سی ریزرویشن کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور۱۷؍ انتہائی پسماندہ ذاتوں کو درج فہرست ذات کے زمرے میں ڈالنے کا وعدہ کیا تھا لیکن پارٹی اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکی۔
چوتھی وجہ: سوامی پرساد موریہ، دارا سنگھ چوہان اور دھرم سنگھ سینی کے حامی اور ووٹر زیادہ تر چھوٹے اور معمولی کسان ہیں۔ موریہ، شاکیہ، کشواہا اور سینی روایتی طور پر سبزیاں اگاتے ہیں اور انہیں مقامی بازاروں میں فروخت کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ نے بڑے جانوروںکے ذبیحہ پر جو سختی کی،ا س کی وجہ سے ان کی کھیتیاں تباہ ہوگئی ہیں۔ بی جے پی کی اس پالیسی نے آوارہ جانوروں کا مسئلہ پیدا کردیا ہے، جو چھوٹے اور پسماندہ کسانوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے جن کی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اتر پردیش میں آوارہ جانوروں کی وجہ سے ہونے والے حادثات میں کئی انسانی جانوں کا اتلاف ہوا ہے۔کسان اس مسئلے کو لے کر شکایت کرتے رہے ہیں لیکن یوگی حکومت کوئی مسئلہ حل نہیں کر پائی ہے۔ حکومت نے گوشالوں کی تعمیر کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں رہا۔کسانوں کا غصہ زیادہ تر آدتیہ ناتھ کے خلاف ہے کیونکہ وہ انہیں اس مسئلے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
پانچویں وجہ:یوگی آدتیہ ناتھ کے کام کرنے کے آمرانہ انداز نے بھی ایم بی سی لیڈروں کو مایوس کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پر الزام ہے کہ وہ اپنے کابینی ساتھیوں کے بجائے بیوروکریسی کی مدد سے حکومت چلاتے ہیں۔ اس طرح کے کام کرنے کے انداز نے اقتدار میں رہنے کے باوجود ان لیڈروں میں بے بسی کا احساس پیدا کیا ہے۔ وہ سمجھتے رہے کہ وہ وزیر ہیں لیکن ان کی آواز نہیں سنی گئی۔
ایسے میں اترپردیش میں طرح طرح کے سوال کئے جارہے ہیں۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کیا ان لیڈروں کے منحرف ہونے سے انتخابی نتائج پر کوئی فرق پڑے گا؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مغربی بنگال کے انتخابات کے دوران بی جے پی میں جوق درجوق لیڈروں کی شمولیت کے بعد بھی حکمراں ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ یہ بات درست ہے لیکن اترپردیش کے حالات مغربی بنگال کے برعکس ہیں۔ وہاں ترنمول کے خلاف عوام میں ناراضگی نہیں تھی جبکہ یہاں پر ہے۔ اس کے علاوہ اتر پردیش میں ذات پات کی بنیاد پر بھی ووٹنگ کا رجحان رائج ہے،اس کی وجہ سے گمان غالب ہے کہ یہاں پر بڑی تبدیلی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔