اتر اکھنڈ کے ہری دوار میں دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کی وکالت کرنے والے خود ساختہ سادھو سنتوں کے خلاف ملک کے انصاف اورامن پسند شہریوں نے پیر کو پوری شدت سے صدائے احتجاج بلند کی اور خاطیوں کی فوری گرفتاری کا پوری شدت سے مطالبہ کیا۔
چیف جسٹس کو وکیلوں کا مکتوب
واضح رہے کہ ہندوؤں کو مسلمانوں کی نسل کشی پر اکسانے کے اس پروگرام کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ ایک طرف جہاں سپریم کورٹ کے ۷۶؍ وکیلوں نے چیف جسٹس آف انڈیا کو مکتوب ارسال کرکے اس معاملہ کا از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے تو وہیں دائیں بازوں کی طلبہ تنظیموں اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے رضاکاروں نے پیر کو دہلی کے اتراکھنڈ بھون پر پہنچ کر احتجاج کیا۔ وہ یتی نرسنگھا نند ، سوامی پربھودھا نند گری، سادھوی اناپورنا،دھرم داس مہاراج اور دیگرکو گرفتار کرنے کا مطالبہ کررہے تھے جنہوں نے دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے ان کی نسل کشی کی وکالت کی ہے۔
مظاہرہ میں پیش پیش رہنے والی تنظیم انہد کی بانی اور انسانی حقوق کی علمبردار شبنم ہاشمی نے کہا کہ ہری دوار میں فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے کی تمام حدیں پار کردیں۔ دھرم سنسد میں شامل افراد نے میانمار کی مثال دے کر مسلمانوں کی نسل کشی کی دعوت دی۔
۱۰؍ روز بعد بھی کارروائی کیوں نہیں؟
انہوں نے اس بات پر حیرت کااظہار کیا کہ اس واقعہ کو ۱۰؍روز گزر چکے ہیں اور وہاں کی پولیس نے کوئی گرفتاری نہیں کی۔ شبنم ہاشمی نے نشاندہی کی کہ جو تقریریں وہاں کی گئی ہیں ان سے پوری دنیا میں ہندوستان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ مظاہرین نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ دھرم سنسد کے آرگنائزراور نفرت پھیلانے کے کلیدی ملزمین ، جنہوںنے کھلے طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری باتیں کیں اور ان کے قتل عام کے لیے اکسایا، کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے اور گرفتار کرکے جیل بھیجا جائے۔
ملک کی کئی ریاستوں میں بیک وقت احتجاج
شبنم ہاشمی نے بتایا کہ’’ آج(پیر کو) ہم نے دہلی ہی نہیں ،بلکہ کئی ریاستوں میں اس کے خلاف احتجاج رکھا ہے اور ہم پوری طاقت کے ساتھ ایسے لوگوں کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے جو مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے اور ماحول کو خراب کرنے کی باتیں کر رہے ہیں ۔‘‘
وزیراعظم بھی تنقیدوں کی زد پر
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے سوال کیا کہ وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں کوٹ لکھپت صاحب گرودوارہ سے خطاب میں اورنگ زیب، احمد شاہ ابدالی کا ذکر کیوں کیا،انہوں نے مغل باشاہوں کے مقابل سکھ گروئوں کا ذکر کیوں کیا۔اس سے پہلے وہ بنارس گئے تو وہاں بھی اورنگ زیب، سید سالار مسعودکا نام لیے بغیر ان کا کام نہیں چلا۔ اپوروانند نے کہا کہ وزیر اعظم مودی اور یوپی کے وزیر اعظم اور دوسرے بی جے پی وزرائے اعلیٰ جو کچھ بولتے ہیں وہ ایک حصہ ہوتا ہے، باقی حصہ ہریدوار جیسے دھرم سنسد پروگرام میں بولا جاتا ہے ۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے
انہوں نے مزید کہا کہ یہ صرف خود کو تسلی دینے والی بات ہے کہ الیکشن آرہے ہیں اس لیے ایسی باتیں ہو رہی ہیں درحقیقت یہ روز کا معمول بن گیا ہے کہ ہندوئوں کی نس نس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر بھراجارہا ہے ۔طلبہ لیڈر محمود انور نے کہا کہ ہماری ناراضگی صرف فرقہ پرستوں کی بیان بازی پر نہیں ہے، بلکہ ان سیکولر جماعتوں سے بھی ہے جو چپی سادھے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا یو اے پی اے قانون ملک کے ایک خاص طبقہ کیلئے ہے؟احتجاج میں آصف اقبال تنہا بھی موجودتھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ دھرم سنسد میں ہندومذہب کی تعلیم کو عام کرنا چاہئے تھا، لیکن وہاںایک خاص فرقہ کا نام لے کرنوجوانوں کو اکسایا گیا اور ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دلائی گئی۔‘‘