قومیائے بینکوں کے ملازمین بینکوں کی نجکاری کے خلاف جمعرات سے دو روزہ ہڑتال پر ہیں اور ہفتے کے آخر میں بینک کی چھٹی ہونے کی وجہ سے صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آل انڈیا بینک آفیسرز کنفیڈریشن (اے آئی بی او سی)، آل انڈیا بینک ایمپلائز ایسوسی ایشن (اے آئی بی ای اے) اور نیشنل آرگنائزیشن آف بینک ورکرز (این او بی ڈبلیو) نے۹؍ یونینوں کی تنظیم یونائیٹڈ فورم آف بینک یونینز (یو ایف بی یو) کے بینر تلے بینکوں کی نجکاری کے خلاف احتجاج کیا۔ قابل ذکر ہے کہ ملک بھر کے بینکوں نے ہڑتال کی کال دی ، جس کے تحت تقریباً ۹؍لاکھ بینک ملازمین نے جمعہ کے روز ہڑتال میں حصہ لیا، ہڑتال کے پہلے دن بینکوں میں کام کاج ٹھپ رہنے سے نقد رقم نکالنے، کاروباری لین دین، قرض کی کارروائی، چیک کلیئرنگ، اکاؤنٹ کھولنے اور کاروباری لین دین جیسی کئی خدمات متاثر ہوئی ہیں۔
پبلک سیکٹر بینکوں کے ملازمین کی بھی حمایت
اس بینک ہڑتال کو پبلک سیکٹر کے بینکوں کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔پرائیویٹ سیکٹر اور علاقائی دیہی بینکوں کے کچھ پرانے ملازمین بھی ہڑتال پر ہیں۔ لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا اور ریزرو بینک آف انڈیا کے ملازمین نے بھی ہڑتال کی حمایت کی ہے۔ بیشتر بینکوں کی انتظامیہ نے بینک تنظیموں کے لیڈروں سے ہڑتال نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔اس کے باوجود ملازمین ہڑتال پر چلے گئے۔
بینک ایمپلائز اسوسی ایشن کا موقف
آل انڈیا بینک ایمپلائز ایسوسی ایشن (اے آئی بی ای اے) کے جنرل سکریٹری سی وینکٹ چلم نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل حکومت کو پبلک سیکٹر کے بینکوں میں ان کی ایکویٹی کیپٹل کو۵۱؍ فیصد تک کم کرنے کا اہل بنائے گا اور پرائیویٹ سیکٹر کو بینکوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مختلف ریاستوں سے ہمیں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ہڑتال کامیابی سے شروع ہوئی ہے اور ملازمین اور افسران جوش و خروش کے ساتھ ہڑتال میں شامل ہو رہے ہیں۔ بینک ملازمین کا ماننا ہے کہ بینکوں کی نجکاریہ ان کی ملازمتوں، ملازمتوں کے تحفظ اور مستقبل کے امکانات کو متاثر کرنے کے علاوہ ملک، معیشت اور عوام کے مفاد میں نہیں ہوگی۔
ہڑتال کے کیا اثرات نظر آئے
بینکوں میں ہڑتال کی وجہ سے بینکنگ لین دین متاثر ہوا ہے۔ بینکوں کی بیشتر شاخیں بند ہیں۔ لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہے اور کئی جگہوں پر اے ٹی ایم میں پیسے نہیں ہیں۔ وینکٹ چلم نے بتایا کہ چیک کلیئرنگ کا کام متاثر ہوا ہے۔ ممبئی، دہلی اور چنئی کے ۳؍ کلیئرنگ مراکز میں تقریباً ۳۷؍ہزار کروڑ روپے کے تقریباً۳۹؍ لاکھ چیک کلیئر نہیں ہوسکے ہیں۔ نہوں نے کہا کہ ہڑتال میں سبھی پی ایس بی کے ملازمین، نجی بینکوں اور غیر ملکی بینکوں کے ملازمین کے ساتھ ساتھ علاقائی دیہی بینکوں (آر آر بی) کے ملازمین نے ہڑتال میں حصہ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ یہ بل موجودہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں پاس ہونے کے ایجنڈے کے طور پر درج ہے، اس لئے ہم نے ہڑتال کی کال دی ہے۔ وینکٹ چلم نے بتایا کہ ایڈیشنل چیف لیبر کمشنر ایس سی جوشی کی طرف سے بلائی گئی مفاہمتی میٹنگ کے دوران حکومت / وزارت خزانہ کے عہدیداروں نے کہا کہ یہ بل ابھی تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ یہ بل کب پیش کیا جائے گا۔ ہم نے حکومت سے درخواست کی کہ وہ یقین دہانی کرائے کہ اس سیشن میں بل پیش نہیں کیا جائے گا تاکہ بینک یونینز حکومت سے بات کر سکیں اور اپنی تفصیلات اور نظریات پیش کر سکیں کہ وہ بینکوں کی نجکاری کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو قانون میں ترمیم سے قبل بینکوں کے متعلقین سے جامع مشاورت کرنی چاہیے۔
احتجاج کو کس کس کی حمایت حاصل ہوئی
اس ہڑتال کی آر بی آئی، ایل آئی، جی آئی سی، کوآپریٹو بینک، نابارڈ نے حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سنٹرل ٹریڈ یونینوں، بی ایم ایس، انٹک، ایٹک، ایچ ایم ایس، سیٹو، اے آئی یو ٹی یو سی، ٹی یو سی سی، اے آئی سی سی ٹی یو، سروس، ایل پی ایف، ٹی یو سی سی، بی کے ایس نے بھی ہمارے مطالبات اور جدوجہد کی حمایت کی ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس، ترنمول کانگریس، ڈی ایم کے، سی پی آئی، سی پی آئی(ایم) اور وائی ایس آر سی پی، شیو سینا، اے اے پی اور وی سی کے جیسی کئی سیاسی پارٹیوں اور ایم پیز نے ہماری جدوجہد کی حمایت کی ہے۔
لکھنؤمیں بینک ہڑتال کو بجلی انجینئروں کی حمایت
لکھنؤ:آل انڈیا پاور انجینئرس فیڈریشن(اے آئی پی ای ایف) نے پرائیویٹائزیشن کی مخالفت میں بینک ملازمین کی دو روزہ ہڑتال کو اپنی حمایت دیتے ہوئے وزیر اعظم اور وزیر مالیات سے پرائیویٹائزیشن کیلئے لائے جارہے بینکنگ سیکٹر لاج(ترمیمی)بل کو واپس لینے کامطالبہ کیا ہے۔ فیڈریشن کے چیئرمین شیلندر دوبے نے کہا کہ پبلک سیکٹر کے بینکوں کا پرائیویٹائزیشن ایک عوام غیر سماجی قدم ہے۔انہوں نے کہا کہ بے روزگاری کے دور میں بینکوں کے پرائیویٹائزیشن سے روزگار کے مواقع بری طرح سے متاثر ہوں گے ۔اور عوام الناس کی جمع رقم محفوظ نہیں رہ پائے گی۔ دو روزہڑتال کے پہلے دن جمعرات کو اترپردیش میں تقریباً ۲۰؍ہزار کروڑ روپئے کے لین دین متاثر ہونے کے شبہات ہیں۔
الور میں احتجاجی میٹنگ
راجستھان کے الورشہر میں سرکاری بینکوں کی نجکاری کے خلاف اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کے علاقائی دفتر، سبھاش نگر کے سامنے ایک میٹنگ منعقد ہوئی۔ یو ایف بی یو کے کنوینر سورو شرما نے کہا کہآج حکومت نیشنلائزڈ فارم کو ہٹا کر بینکوں کی نجکاری کرنا چاہتی ہے۔ جو نہ ملک کے مفاد میں ہے اور نہ ہی بینک ملازمین کے مفاد میں۔علاوہ ازیں راجستھان بھر میں ہڑتال جاری ہے۔
پنجاب میں بھی جگہ جگہ مظاہرے
فرید کوٹ: بینکوں کی دو روزہ ہڑتال کے پہلے دن جمعہ کو پنجاب میں بینکوں کا کام کاج بری طرح متاثر ہوا اور عوام کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ریاست کے کئی شہروں میں بینک ملازمین نے زبرست مظاہرہ بھی کیا جس میں حکومت مخالف نعرے لگائے گئے۔
ہماچل میں بھی نجکاری کے خلاف مظاہرہ
شملہ:یہاں کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیاگیا۔ اس سے پہلےایس بی آئی،انڈین بینک،یوکو بینک ،سینٹرل بینک آف انڈیا،بینک آف انڈیا،پنجاب اینڈ سندھ بینک اور کینرا بینک جیسے سرکاری شعبہ کے بینکوں نے اپنے اہلکاروں سے دو روزہ ہڑتال شروع کرنے کے فیصلے کو واپس لینے کی اپیل کی تھی۔ تاہم ریاست بھر میں بینک ملازمین نے مظاہرہ کیا ہے۔