لوک سبھا میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت پر کورونا وبا سے نمٹنےکیلئے مناسب انتظام کرنے میں ناکام رہنے اور عوام کے لیے ہمدردی سے کام نہ کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اس دوران حکومت صرف وزیر اعظم نریندر مودی کی امیج بچانے اور اپنی پیٹھ تھپتھپانے میں لگی ہوئی ہے۔
کانگریس کے گورو گوگوئی نے ضابطے۱۹۳؍ کے تحت کووڈ ۱۹؍ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے موضوع پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کورونا کے دوران حکومت کو ملک کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش آنا چاہئے تھالیکن وہ سخت بنی رہی اور اس نے لوگوں کے مسائل کو اہمیت نہیں دی۔ حکومت کا ظلم ا س قدر رہا کہ اس نے کورونا کے دور میں بھی پیٹرول اور ڈیزل سے پیسے کمانے کا کام جاری رکھا۔انہوں نے کہا کہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے حکومت کو کووڈ سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا لیکن ان کی بات کا مذاق اڑایا گیا۔ راہل گاندھی کی یہ بات کورونا کی دوسری لہر میں سچ ثابت ہوئی جب ہم وطنوں کو اسپتالوں میں بستر نہیں ملے اور لوگ وینٹی لیٹر لئے ترستے رہے۔ پورے ملک میں اتفرا تفری کا ماحول تھا۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس عرصے کے دوران تین ہزار سے زائد بچے یتیم ہوئے اور۲۶؍ ہزار سے زائد بچوں نے اس وبا کی وجہ سے اپنے والدین میں سے کسی ایک کو گنوایا ۔
کانگریس لیڈر نے کہا کہ حیران کن بات یہ ہے کہ دوسری لہر سے پہلے راہل گاندھی کے مشورے پر دھیان دینے کے بجائے مودی ڈابوس میں یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ہندوستان نے کورونا پر فتح حاصل کر لی ہے۔ کووڈ ویکسین باہر کے ممالک میں بھیجی گئی اور اپنے لوگوں کو نظر انداز کیا گیا۔ گوگوئی نے کہا کہ حکومت نے جن لوگوں کو کورونا واریئر کے طور پر نوازا تھا بعد میں ان کی ہی تذلیل شروع کردی۔ کورونا کے دوران اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام کرنے والی آشا ورکرز نے اپنے مطالبے کے لیے سڑکوں پر احتجاج کیالیکن حکومت نے ان کی بات ماننے کے بجائے ان پر لاٹھیاں برسائیں اور ان کی تذلیل کی۔ڈی ایم کے کے ڈاکٹر ڈی این وی سینتھل کمار نے کہا کہ وزیر اعظم نے۲۱؍ دن کا لاک ڈاؤن لگا کر لوگوں کو کافی پریشانی میں ڈال دیا تھا۔ اس دوران مزدوروں اور محنت کشوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور یہ لوگ سینکڑوں کلومیٹر پیدل چل کر اپنے گھروں کو جانے پر مجبور ہوئے۔ اس دوران لاکھوں مزدوروں کو اپنے کام کی جگہوں سے اپنے گھروں تک پیدل جانا پڑا۔ مودی کے اچانک لاک ڈاؤن کے اعلان سے محنت کش طبقے کے لوگوں کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔