شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں پیش پیش رہنے والے نوجوان اسکالر شرجیل امام کو گزشتہ دنوں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے غداری کے ایک مقدمے میں ضمانت دیدی ہے۔ ضمانت کا تفصیلی حکم نامہ گزشتہ روز جاری ہوا ہے جس میں واضح طور پر لکھا ہے کہ شرجیل امام نے کوئی سازش نہیں کی۔ ہر چند کہ عدالت کے اس فیصلے کے باوجود شرجیل امام کی رہائی ممکن نہیں ہو پائے گی کیوں کہ انہیں مختلف ریاستوں میں متعدد مقدمات میں ماخوذ کیا گیا ہے جن پر شنوائی ابھی جاری ہے۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کے تفصیلی حکم نامہ کے مطابق جج نے واضح طور پر درج کیا ہے کہ شرجیل امام نے نہ تشدد کے لئے اکسایا، نہ اشتعال انگیز تقریر کی اور نہ کسی کو ہتھیار اٹھانے کے لئے مجبور کیا یا اسے اکسایا۔جسٹس سومترا دیال سنگھ نے اپنے حکم میں لکھا ہے کہ شرجیل امام کواس بنیاد پر ضمانت دی جاتی ہے کہ ان کی تقریر میں ایسی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ملی جس کی بنیاد پر ضمانت روکی جاسکے۔ ان کے بیانات سے پہلی نظر میں تو یہ واضح ہو رہا ہے کہ انہوں نے کوئی تشدد نہیں بھڑکایا بلکہ کہیں ان تقاریر کی وجہ سے کوئی پتھر تک نہیں چلا۔ ہر چند کہ جسٹس سومترا دیال نے یہ واضح کیا کہ شرجیل امام کے بیانات کا تفصیلی جائزہ اس وقت لیا جائے گا جب اس معاملے میں مقدمہ کی کارروائی آگے بڑھائی جائے گی لیکن اس وقت انہیں ضمانت دینا زیادہ اہم ہے اور اس کی بنیاد یہی ہے کہ ان کے تقریرسے کوئی تشدد نہیں ہوا ہے۔
جسٹس سومترا پال نے اپنے حکم میں یہ بات بھی درج کی ہے کہ اگر شرجیل امام پر مقدمہ چلتا ہے اور انہیں سزا ہو تی ہے تو وہ ۳؍ سال سے زیادہ کی نہیں ہو گی جبکہ شرجیل گزشتہ تقریباً ۱۴؍ ماہ سے جیل میں ہیں۔ یہ بات خود بخود انہیں ضمانت دینے کا جواز پیدا کردیتی ہے۔ اس لئے انہیں ضمانت دی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ شرجیل امام اس وقت دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں جہاں ان پر دہلی فسادات اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونے والے تشدد کے مقدمات چل رہے ہیں۔