اتوار, جون 15, 2025
  • انگریزی
  • ہندی
  • پرائیویسی پالیسی
  • اشتہار
  • ہم سے رابطہ کریں
  • کیریئر کے
  • ہمارے متعلق
انگریزی
ہندی
مسلم ٹوڈے
  • صفحئہ اول
  • بھارت
  • دنیا
  • اداریہ
  • ملاقات
  • کھیل
  • تعلیم
  • اقتصادیات
  • میگژین
  • سنیما
No Result
View All Result
  • صفحئہ اول
  • بھارت
  • دنیا
  • اداریہ
  • ملاقات
  • کھیل
  • تعلیم
  • اقتصادیات
  • میگژین
  • سنیما
No Result
View All Result
مسلم ٹوڈے
No Result
View All Result
Home بھارت

ترقی کی یہ راہ زہریلی

Rubina by Rubina
نومبر 20, 2021
in بھارت, تعلیم
0 0
0
ترقی کی یہ راہ زہریلی
176
SHARES
195
VIEWS
Share on FacebookShare on Twitter

آلودگی کے تعلق سے ابھی ہر طرح کی باتیں موضوع بحث ہیں۔ مگر ان سبھی مباحثوں میں جس ایک پہلو کو نظرانداز کیا جارہا ہے، وہ ہے ہمارا ترقی کا ماڈل۔ آلودگی بڑھانے میں اس کا بڑا رول ہے۔ یہ فزیکل ڈیولپمنٹ کو انسانی ترقی کاپیمانہ مانتا ہے۔ تقریباً 150-200سال پرانا یہ ماڈل زیادہ سے زیادہ پیداوار پر زور دیتا ہے، تاکہ لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہو اور وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ فزیکل فیسیلیٹیز(جسمانی سہولتیں)فراہم کرسکیں۔ اس میں ’مور اِز بیٹر‘ (جتنا زیادہ، اتنا اچھا) کا تصور منسلک ہے۔ چوں کہ معاشیات کے اصولوں کے مطابق، ہماری سمجھداری اسی میں ہے کہ ہم خود کی بہتری کرتے رہیں، اس لیے ہم ہمیشہ اپنی سوچتے ہیں اور اپنے مفادات کی تکمیل میں ہی مصروف رہتے ہیں۔
اس وجہ سے ہر انسان زیادہ کھپت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کھپت بڑھنے کا مطلب ہے آلودگی میں زیادہ اضافہ۔ بازار نے ہماری سوچ اتنی کُند کردی ہے کہ اگر ہم کھپت میں اضافہ نہیں کرتے تو یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ اپنی ترقی نہیں کررہے ہیں۔ یہ سوچ پہلے ترقی یافتہ ممالک تک محدود تھی،لیکن بعد میں تیسری دنیا(ہندوستان بھی اس میں شامل ہے) کے خوشحال طبقوں کی بنی اور اب یہ رِس کر متوسط طبقہ تک پہنچ گئی ہے۔
دہلی کا معاشرتی اور معاشی سروے بتاتا ہے کہ یہاں 90فیصد کنبوں کا ماہانہ خرچ 10ہزار روپے بھی نہیں ہے۔ اتنی کم رقم میں ان کی بنیادی ضرورتیں ہی جیسے تیسے پوری ہوپاتی ہوں گی،، اس لیے اپنے ملک میں کھپت بنیادی طور پر خوشحال طبقہ کررہا ہے۔ دنیا کی سطح پر یہ طبقہ امیر ممالک کا ہے۔ یہ ’ری سائیکل‘ میں یقین نہیں کرتا۔ اس کے لیے پروڈکٹ خراب ہونے کا مطلب نئے پروڈکٹ کی خریداری ہے۔ اسی لیے کاربن فٹ پرنٹ میں اس کی حصہ داری زیادہ ہے اور غریبوں کی بہت کم۔ مشکل یہ ہے کہ سب کچھ جانتے سمجھتے ہوئے بھی مالدار طبقہ اپنی کھپت کم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری آب و ہوا جان لیوا ہوگئی ہے، ندیاں اپنی شفافیت کھوچکی ہیں اور زمین کا استحصال بڑھنے لگا ہے۔ ہم چاہیں تو ان میں بہتری لاسکتے ہیں۔ بیشک، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کا اثر ہم پر بھی ہورہا ہے، لیکن ندیوں کی صاف صفائی یا زمین کی حفاظت ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔
واضح ہے، ترقی یافتہ ممالک کی تہذیب اپنانے کے برے نتائج ہندوستان جیسے ملک بھگت رہے ہیں۔ ہم ایک طرف اپنا جی ڈی پی بڑھانے کے لیے ایسی معاشی سرگرمیاں کرتے ہیں، جن سے آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر اس کو صاف کرنے کی مبینہ مشق کرکے جی ڈی پی بڑھاتے ہیں اور اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں۔ یعنی پہلے بیمار کرو اور پھر علاج میں ہوئے خرچ کو جی ڈی پی میں جوڑ کر اپنی ترقی دکھاؤ۔ انڈین اکنامی سنس انڈیپنڈینس نامی کتاب میں میں نے سوال کیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ڈاکٹر، نرس یا اسپتال ایک اچھے معاشرہ کی علامت ہیں یا برے معاشرے کی؟ ان کی ایک مثالی تعداد تو سمجھی جاسکتی ہے، لیکن اگر گلی گلی میں اسپتال کھلنے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ بیماریوں کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ اسی کتاب میں ایک جگہ میں نے 2002میں ایمس کے ڈاکٹروں کے ذریعہ کی گئی ریسرچ کا ذکر کیا ہے۔ اس ریسرچ کے مطابق 1980کی دہائی میں بچوں کو دمہ کی شکایت نہیں ہوتی تھی، لیکن 2002میں دمہ کے کل مریضوں میں بچوں کی حصہ داری تقریباً 15فیصد تھی۔
یہ سب کچھ مارکیٹنگ کی وجہ سے ہے۔ ’مور اِز بیٹر‘ کا تصور دراصل ہماری زندگی میں رچ بس گیا ہے۔ مارکیٹنگ کے ساتھ ہی یہ بھی منسلک ہے کہ صاف تکنیک ترقی یافتہ ممالک میں رہے گی اور خراب(یعنی بیمار کرنے والی) تکنیک ترقی پذیر ممالک میں۔ ایسا کیوں؟ اس کا انکشاف ورلڈ بینک کے چیف اکنامسٹ رہے لارنس ہینری سمرس نے 2002میں کیا تھا۔ انہوں نے ایک پرچہ لکھا تھا جو لیک ہوگیا۔ انہوں نے لکھا تھا، یہ بازار طے کررہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ ترقی پذیر ممالک میں لوگ مریں، کیوں کہ امیر ممالک کے باشندے مارکیٹ کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ ان کی فی شخص آمدنی زیادہ ہے اور وہ نسبتاً لمبی عمر جیتے ہیں۔ ان کی سوچ کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ کبھی دہلی کی جمنا کی طرح گندی رہنے والی ٹیمس ندی اس لیے صاف ہوپائی کیوں کہ وہاں صاف تکنیک کا استعمال ہونے لگا۔ مگر ترقی پذیر ممالک میں ایسا نہیں ہوسکتا، کیوں کہ ان کے پاس اتنی جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ وسائل بھی محدود ہیں۔
واضح ہے، جب تک ہم بازار کو توجہ دیں گے، آلودگی کا حل نہیں نکال پائیں گے۔ کاربن کے اخراج کو کم کرنے کی باتیں سبھی کررہے ہیں، مگر اس میں اس لیے اضافہ ہورہا ہے کیوں کہ ہم نے اس کو کم کرنے کے لیے غلط راستہ کا انتخاب کیا ہے۔ مثلاً، عالمی درجہ حرارت کو1.5ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے پر تمام لوگ متفق نظر آرہے ہیں، مگر کیا کسی نے یہ سوچا کہ جب ہم 2ڈگری سیلسیس تک بھی نہیں پہنچے ہیں اور ’غیرمتوازن موسم کی انتہائی حالت‘ کو برداشت کرنے کے لیے مجبور ہیں، تب جب اس معیار تک پہنچیں گے، تب کیا ہوگا؟ اسی لیے اچھا ہوگا کہ ابھی جتنا عالمی درجہ حرارت ہے، ہدف اس سے کم رکھا جائے۔
آخر اس کا حل کیا ہو؟ یہاں مہاتماگاندھی کو ہمیں یاد کرنا چاہیے۔ گاندھی جی عدم تشدد کی بات کرتے تھے۔ اس میں صرف دوسرے انسان کے ساتھ نہیں، بلکہ فطرت کے ساتھ بھی تشدد(استحصال، کانکنی وغیرہ) نہ کرنے کی گزارش شامل تھی۔ اسی لیے وہ کہا کرتے تھے کہ فطرت سب کی ضرورت تو پوری کرسکتی ہے، لیکن لالچ کو پورا نہیں کرسکتی۔ بدقسمتی سے، ہم کسی لالچ کی گرفت میں ہیں۔ لوگوں کو بیدار کرکے ہی آلودگی کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ گاندھی جی کے مطابق، ہمیں عام طرززندگی اپنانی ہوگی۔ ذاتی مفاد کی جگہ سبھی کے مفادات پر توجہ دینی ہوگی اور معاشرہ کا ہر ممکن خیال رکھنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرسکیں، تبھی بات بنے گی۔ ورنہ، بازار کا یہ ماڈل سب کچھ تہس نہس کردے گا۔
(مضمون نگار ماہرمعاشیات ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

 

Previous Post

کسانوں کی تحریک کے سامنے سرجھکاتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔

Next Post

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے تینوں زرعی قانون کو واپس لئے جانے کے اعلان

Next Post
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے تینوں زرعی قانون کو واپس لئے جانے کے اعلان

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے تینوں زرعی قانون کو واپس لئے جانے کے اعلان

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

ہمارے چینل

https://www.youtube.com/watch?v=8PdsmgX4rdc

تازہ ترین خبر

بنگال بی جے پی کا اگلا صدر کون ہوگا؟

بنگال بی جے پی کا اگلا صدر کون ہوگا؟

اکتوبر 16, 2024
عمران خان کے سیل میں مکمل اندھیرا ہے، باہر نکلنے کی بھی اجازت نہیں، جمائما

عمران خان کے سیل میں مکمل اندھیرا ہے، باہر نکلنے کی بھی اجازت نہیں، جمائما

اکتوبر 16, 2024
ہماچل پردیش: منڈی میں مسجد کا حصہ منہدم کرنے کے حکم پر عدالت کی روک

ہماچل پردیش: منڈی میں مسجد کا حصہ منہدم کرنے کے حکم پر عدالت کی روک

اکتوبر 16, 2024
Currently Playing

ٹیگ

#دنیا coronavirus delhi jamia milia saharanpur saudi arab shaheen bagh آر ایس ایس اتر پردیش اداکارہ امت شاہ امریکہ ایران بابری مسجد بھارت بہار بی جے پی جھارکھنڈ دلت راجستھان راہل گاندھی سپریم کورٹ لکھنؤ محبوبہ مفتی مدھیہ پردیش مرکزی حکومت مریم نواز ممبئی مودی مہاراشٹر نئی دہلی نواز شریف وزیر اعظم ٹرمپ پاکستان پی ڈی پی ڈونالڈ ٹرمپ ڈونلڈ ٹرمپ کانگریس کشمیر کم جونگ ان کیجریوال گینگسٹر ہریانہ یوگی حکومت

ہمارے بارے میں

زمرے

  • Uncategorized (86)
  • اداریہ (5)
  • اقتصادیات (5)
  • بھارت (2,458)
  • تعلیم (239)
  • دنیا (632)
  • سنیما (96)
  • سیاست (1,634)
  • صحت (89)
  • کھیل (33)
  • ملاقات (24)
  • میگژین (6)
  • انگریزی
  • ہندی
  • پرائیویسی پالیسی
  • اشتہار
  • ہم سے رابطہ کریں
  • کیریئر کے
  • ہمارے متعلق
  • انگریزی
  • ہندی
  • پرائیویسی پالیسی
  • اشتہار
  • ہم سے رابطہ کریں
  • کیریئر کے
  • ہمارے متعلق

© 2021 Muslim Today.

No Result
View All Result
  • صفحئہ اول
  • بھارت
  • دنیا
  • اداریہ
  • ملاقات
  • کھیل
  • تعلیم
  • اقتصادیات
  • میگژین
  • سنیما

© 2021 Muslim Today.

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Add New Playlist