سری نگر: جموں وکشمیر کے حیدرپورہ انکاونٹر میں مارے گئے شہری محمد الطاف اور مدثر گل کی لاشوں کو جمعرات کو افسران نے قبر سے باہر نکالا تاکہ ان کے اہل خانہ کو سونپی جا سکے۔ افسران نے بتایا کہ غروب آفتاب کے بعد ان کی لاشوں کو قبر سے باہر نکالا گیا اور رات میں لاش کو اہل خانہ کو سونپی جاسکتی ہے۔ گزشتہ سال مارچ میں کووڈ-19 وبا پھیلنے کے بعد سے پہلی بار ہے جب پولیس کی نگرانی میں تدفین کی گئی لاش کو ان کے اہل خانہ کو لوٹائی جارہی ہے۔ افسران نے بتایا کہ ہند واڑہ سے لاشوں کو سری نگر لایا جا رہا ہے، جس کے ساتھ پولیس کی ٹیم بھی ہے۔ شروع میں لاشوں کو ہندواڑہ میں ہی دفن کیا گیا تھا۔
افسران نے بتایا کہ ہندواڑہ سے لاشیں سری نگر لائی جا رہی ہیں، جس کے ساتھ پولیس کی ٹیم بھی ہے۔ شروع میں لاشوں کو ہندواڑہ میں ہی دفن کیا گیا تھا۔ اس درمیان جموں وکشمیر انتظامیہ نے حیدرپورہ میں ہوئے تصادم کی جمعرات کو جانچ شروع کردی۔ تصادم میں مارے گئے 4 میں سے تین لوگوں کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ وہ بے گناہ تھے۔ وہیں سیاسی جماعتیں بھی اہل خانہ کی حمایت میں اتر آئی ہیں اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت میں پُرامن دھرنا دیا گیا۔
جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے جمعرات کو حیدرپورہ تصادم کی مجسٹریل جانچ کا حکم دیا، جس میں ایک عمارت کے مالک اور ایک ڈاکٹر سمیت چار لوگ مارے گئے تھے۔ جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے دفتر نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ حیدرپورہ تصادم میں اے ڈی ایم رینک کے افسر کے ذریعہ ایک مجسٹریل جانچ کا حکم دیا گیا ہے۔ مقررہ مدت میں رپورٹ پیش ہوتے ہی حکومت مناسب کارروائی کرے گی۔ جموں وکشمیر انتظامیہ بے قصور شہریوں کی زندگی کی حفاظت کرنے کے عزائم کو دہراتی ہے، یہ یقینی بنایا جائے گا کہ کوئی نا انصافی نہ ہو۔
15 نومبر کو حیدرپورہ تصادم میں چار لوگ مارے گئے تھے۔ حالانکہ مارے گئے تین لوگوں کے اہل خانہ نے پولیس کے دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مارے گئے لوگ بے قصور تھے۔ کشمیر کے پولیس سربراہ وجے کمار نے اعتراف کیا کہ عمارت کا مالک الطاف احمد ایک شہری تھے، جو کراس فائرنگ میں مارا گیا تھا، لیکن اس نے کہا کہ ڈاکٹر مدثر گل ایک او جی ڈبلیو تھے جبکہ تیسرے کی شناخت امیر احمدکے طور پر ہوئی تھی۔