ہمارا یہاں پر جانا اتفاق تھا،چند ماہ پہلے ذاتی مشن کے لیے امروہہ جانا ہوا، چند شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں، کچھ متحرک شخصیات کے کاموں کو دیکھا، کچھ سیکھنے کا موقع ملا تو کچھ پانے کا جذبہ دل ہی دل میں بیدار ہوا، وہ الگ بات ہے کہ جذبہ دل ہی دل میں دفن ہو گیا، اور اس کو کفن مل گیا، دل کو اپنا قبرستان بنا لیا، اس جذبہ کو دل سے باہر نکالنے کی توفیق نہیں ہوئی، سچ کہتے ہیں جو جذبہ محض جذبات سے لبریز ہو، اس کا کوئی فائدہ نہیں، اگر ہمارا جذبہ ملت اسلامیہ کے تئیں فقط جذبات کے قبیل سے ہو باطنی تدابیر سے خالی ہو، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں،
خواہ مشاہدہ کر کے یا تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ خیر آج کے ماڈلنگ زمانے میں اس طرح کی تحریر سے آپ کو بور نہیں کرنا چاہتا، لمبی چوڑی لفاظی تحاریر کا بندہ بھی قائل نہیں، تو اصل موضوع پر تشریف لے چلیں، ذرائع سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ہمارے یہاں سے تعلق رکھنے والے امروہہ کی فلاں جگہ پر فلاں مسجد میں ایک امام صاحب ۳۵,سال سے دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، ملاقات کی خواہش بڑھی، بڑھتی بھی کیوں نہیں؟ امروہہ میں چھ سال رہنے کے بعد بھی اس جگہ کے بارے میں پتہ نہیں چلا، اور آج بھی امروہہ کے کچھ لوگوں کو اس جگہ کے بارے میں پتہ ہی نہیں۔ ملاقات ہوئی، لمبی گفتگو کے بعدکہنے لگے : میں ۳۵,سال سے مسلسل یہاں پر قیام پذیر ہوں، پوچھا اس سنسان ،گم نام جگہ پر کیسے رہ رہے ہیں ؟یہاں تو چوروں ،ڈکیتوں ،لٹیروں، شرابیوں کبابیوں کا دور دورہ ہوگا، جب کہ ایسے وقت میں اسلاموفوبیا کا اثر حد سے زیادہ مرتب ہوتا دکھ رہا ہے، سنگھی شرپسندوں نے نوجوانوں کے اذہان کو بدل کر رکھ دیا ہے، جب انہوں نے بے قصور مسلمان بھائیوں کو نہیں چھوڑا ، ہماری روحانی ماں بابری مسجد کو نہیں چھوڑا تو یہاں پر بھی حملہ کر سکتے ہیں۔۔اسی بات پر کہنے لگے : تین مرتبہ یہاں پر شرپسندوں کا حملہ ہوا، ۔ہم نے پوچھا اس وقت آپ کہاں تھے؟ بولے یہیں پر. حیرت ہوئی اور ہونی بھی چاہیئے، کہنے لگے : 6,دسمبر 1992, کو شرپسندوں نے اس مسجد کو شہید کر دیا تھا۔۔اس وقت یہ مسجد (ڈبل پھاٹک والی مسجد) صحیح سے تعمیر بھی نہیں ہوئی تھی، میرا یہاں پر رہنا بھی نہیں ہوتا تھا، یہاں سے گھر جانے والا تھا ،ہمّت پست ہو چکی تھی، آخر کار اس جگہ کو الوداع کہہ چکا تھا، نتیجتاً دو سال تک مسجد بند رہی ، تیسرے سال پھر کسی طرح اطمینان دلا کر رکھ ہی لیا، اس کے پھر کچھ سال بعد یہاں پر حملہ ہوا ،ہم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا، تب سے سوچ لیا ہے کہ مجھے جان ہی دینی کیوں نہ پڑ جائے لیکن یہاں پر دینی خدمت انجام دیتے رہوں گا,الحمدللہ آج اس غیر مسلم علاقے میں قائم شدہ مسجد نئے سرے سے تعمیر کر کے شاندار بنا دی گئی ہے، امام صاحب کی کافی محنتیں کام کر گئیں، پانچوں وقت کی نمازیں ہو رہی ہیں۔۔جمعہ میں 80,90 لوگ حاضر ہو جاتے ہیں۔۔ در اصل یہ مسجد تقریباً دو ڈھائی بیگھے زمین پر مشتمل ہے, ایک حصہ میں قبرستان دوسرے حصہ میں کچھ کمرے ہال وغیرہ تیسرے حصہ میں غسل خانے وغیرہ اور چوتھے حصہ میں مسجد ہے, خدام دین کے لیے زبردست کام ہو سکتا ہے۔ سب چیزوں کا دار و مدار نیت پر ہے۔ دوسری بات ہم جن نوجوانوں کو سماج میں بہت زیادہ غلط سمجھتے ہیں وہی وقت پر مسلمانوں کے کام آجاتے ہے، تیسری بات لوگ لفٹ میں چلنے کی عادت ڈال کر ہوٹلوں کے کھانے کی عادی بن کر آرائش میں مبالغہ کرتے ہوئے مبتلاء ہوکر خود کو بےحد کمزور کر چکے ہیں۔اتنا کمزور کہ وقت پر پانی اٹھانے کے لیے بیٹوں کی ضرورت پڑتی ہے، نرم ہاتھوں میں کتابیں پڑھتے ہوئے کتابیں اچھی لگتی ہیں۔۔لیکن کتابیں پڑھنے کے بعد نرم ہاتھ کتابوں کو اچھے نہیں لگتے، کیوں کہ کتابیں پڑھنے کے بعد بھی ہاتھوں کا نرم ہی رہنا کتابی تعليمات کے منافی ہے۔۔۔۔۔!! والسلام اللہ مسلمانوں کو چاروں اطراف سے تقویت بخشے آمین
ارسلان نعمانی