(اسٹاف رپورٹ) یوگی آدتیہ ناتھ نے جب سے اترپردیش کی کمان سنبھالی ہے تب سے ہی ان کے کچھ افسران صوبے میں نفرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔ آئے دن ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جن میں ایک فرقے کو نشانہ بناکر ان کی شناخت کو یا تو ہدف تنقید بنایا جاتا یا مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالیہ واقعہ اترپردیش کے پیلی بھیت کا ہے جہاں کے ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو صرف اس لئے برخاست کر دیا گیا کیوں کہ اس نے بچوں کی ایک نظم ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“ اسکول میں بچوں سے پڑھوائی تھی۔

نوجوان سماجی کارکن محمد اشرف ریاض الحسینی نے بتایا کہ اس طرح کے واقعات کے لئے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے، کیوں کہ نفرت کی بنیاد پر نہ تو کسی قوم نے آج تک ترقی کی ہے اور نہ ہی کوئی سماج اعلی اقدار کی بلندیوں کو چھو سکا ہے۔ واضح ہو کہ یہ نظم 1902ء میں علامہ اقبال کے ذریعہ لکھی گئی تھی اور اس نظم کو دعا کے طور پر تقریباً ایک صدی سے برصغیر کے لاتعداد اسکولوں میں صبح کے وقت پڑھا جاتا ہے۔
افسران شاید یہ بھول گئے کہ ترانہ ہند ”سارے جہاں سے اچھا“ کے خالق بھی علامہ اقبال ہی ہیں اور اس دعا میں ایسا کوئی لفظ نہیں ہے جس سے کسی مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری ہو۔ یہ صرف اور صرف اور ایک فرقے اور اس کی شناخت کو نہ صرف مٹانے کی کوشش ہے بلکہ اسے ہراساں کرنے کی ایک سازش ہے۔ ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور یوگی آدتیہ ناتھ سرکار سے اپیل کرتے ہیں کہ خطی افسران کو اس گناہ کے لئے سزا دی جائے۔
اشرف الحسینی نے کہا ک ہندوستان کا آئین سب کو برابری کا حق دیتا ہے اور ریاست کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مذہب کی بنیاد پر تفریق کی جائے۔ اس لئے یہ اقدام آئین کی خلاف ورزی بھی ہے۔