پنجاب ہائی کورٹ میں داخل طلاق کی ایک عرضی پر سماعت ہوئی۔ کورٹ نے خاتون کی طرف سے داخل عرضی کو خارج کردیا ہے۔ ہائی کورٹ نے خاتون کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ سہاگ رات پر شوہر سے یہ کہنا کہ وہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتی تھی کسی ظلم و زیادتی سے کم نہیں ہے۔
دراصل شوہر نے نچلی عدالت میں طلاق کی عرضی داخل کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اس کی بیوی نے سہاگ رات کے وقت کہا تھا کہ وہ اس سے نہیں بلکہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ نچلی عدالت نے شوہر کی عرضی کو قبول کرتے ہوئے طلاق کا فیصلہ سنایا تھا۔
بیوی نے کورٹ کے فیصلے کو چیلنج دیتے ہوئے ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی۔ ہائی کورٹ نے اپیل خارج کرتے ہوئے نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ یہاں کورٹ میں شوہر نے دلیل دی ہے کہ اس کی بیوی نے شادی کے اگلے ہی دن اس کی ماں کے ساتھ غلط رویہ اختیار کیا اور ان سے بدسلوکی کی۔ شوہر نے یہ بھی کہا کہ بیوی نے اسے اور اس کی فیملی کو پریشان کرنے کیلئے پولیس میں شکایت بھی درج کرائی تھی جس کی وجہ سے اسے اور اس کی فیملی کو کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔
شوہر نے سماعت کے دوران کورٹ کو بتایا کہ اس کی بیوی شادی کے ایک مہینے کے بعد ہی گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اس پر کورٹ نے دونوں فریقوں کی بات سننے کے بعد بیوی کی عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ ظلم کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا ہے۔ بیوی کی طرف سے کی گئی شکایت کے مدنظر شوہر اور اس کی فیملی کو جن مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا وہ بہت غلط ہے۔ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ سہاگ رات پر شوہر سے یہ کہنا کہ وہ اس سے نہیں بلکہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتی تھی بہت ہی ظلم وزیادتی والی بات ہے۔