سکھ کو یاد کرتے ہوئے ہم اندر سے خوش ہو جاتے ہیں۔ کئی بار دل ہی دل میں مسکرانے لگتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی سکھ کا خیال چھوٹا ہی ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس دکھ کا خیال ہوتے ہی ہم کہیں گہرے اتر جاتے ہیں۔ اندر تک چلے جاتے ہیں۔ سکھ کا وقت چھوٹا، ملائم جبکہ دکھ کا وقت گہرا اور نوکیلا ہوتا ہے۔ یہ بات بچپن سے سکھائی جا رہی ہے کہ دکھ کے وقت خود کو سنبھالئے۔ لیکن کیسے، اس پر بات نہیں ہوتی۔
دکھ سچ ہے۔ اسے قبول کرنے کی بات ایک طرح سے تھیوری ہے۔ آج ہم اس کے عملی ہونے کی بات کرتے ہیں۔ دکھ کا سامنا کیسے کیا جائے۔ ایک چھوٹی سی کہانی سنتے چلیں۔ اگر پہلے کہیں پڑھی ہے تو ایک بار دہرا لیجئے۔
یہ کنبہ سمندر کے کنارے رہتا تھا۔ دو بھائی تھے۔ بڑا بہادر اور سمجھدار تھا۔ چھوٹا، حساس تھا۔ دونوں ہر دن سمندر کے کنارے ریت پر کھیلنے جاتے۔ ایک دن کسی بات پر بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو تھپڑ مار دیا۔ چھوٹے بھائی نے دکھی ہوتے ہوئے ریت پر لکھا ’ آج، بھائی نے مجھے مارا‘۔ کچھ دن وہیں اچانک تیز لہروں نے چھوٹے بھائی کو گھیر لیا۔ چھوٹا بھائی ڈوبنے لگا۔ بڑے نے اپنی جان کی پروا کئے بغیر اس کی جان بچائی۔ جب دونوں بھائی وہاں سے گھر چلنے کو ہوئے تو وہاں پڑی ایک چٹان پر چھوٹے بھائی نے لکھا ’ آج بھائی نے میری زندگی بچائی‘۔
بڑے کو تعجب ہوا۔ اس نے کہا، جب تم کو مارا تو تم نے ریت پر لکھا۔ جب بچایا تو چٹان پر۔ ایسا کس لئے؟
چھوٹے بھائی نے کہا ’ جب تم نے تھپڑ مارا تو دکھ ہوا۔ اسے ریت پر لکھا تاکہ کچھ دیر میں مٹ جائے۔ ہمیں دکھ کو ریت پر ہی لکھنا چاہئے۔ اس سے اس کی یاد جلدی مٹ جاتی ہے۔ جب تم نے میری جان بچائی تو چٹان پر لکھا جس سے یہ ہمیشہ یاد رہے کہ تم نے میرے لئے کیا کیا تھا۔ سکھ کو بڑا بنائیے۔ دکھ کو چھوٹا۔ اس کی یاد چھوٹی رکھئے‘۔
کہنے کو تو یہ کہانی ہے۔ لیکن تھوڑا ٹھہر کر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے۔ ہم نے انجانے میں کیسا الٹا کام کیا ہے۔
اپنے دکھ کو ہم نے چٹان پر لکھ رکھا ہے۔ سکھ کو ریت پر۔ دکھ دل میں گہرا اترا رہتا ہے۔ سکھ کو وقت کی لہر مٹاتی رہتی ہے۔ دل کڑوا، بھاری ہوتا جاتا ہے۔ یہ عمل آسان نہیں ہے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ یہ ممکن نہ ہو۔ دل کے تئیں تھوڑی سی سائنسی سوچ اپنا کر ہم اس نقطہ نظر کو حاصل کر سکتے ہیں۔ اسے تجربہ کی طرح زندگی میں اپنائیں، اپنے احساسات لکھ کر بھیجیں۔
Email: dayashankarmishra2015@gmail.com