بابری مسجد اور رام جنم بھومی معاملہ پر روزانہ سماعت کا آج 17واں دن اور آج سے مسلم فریق اپنی دلیلوں کو عدالت کے سامنے رکھیں گے۔ سنی وقف بورڈ کی طرف سے سینئر ایڈووکیٹ راجیو دھون اپنے دلائل رکھیں گے اور انھوں نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ وہ اپنی بات مکمل کرنے میں 20 دن کا وقت لیں گے۔ آج راجیو دھون نے سماعت شروع ہونے کے شروع میں ہی کچھ باتوں کے لیے معافی مانگی۔ انھوں نے عدالت کے سامنے کہا کہ ’’میں میڈیا میں اپنے تبصرے اور سینئر وکیل پی این مشرا پر کیے گئے تبصرے کے لیے بھی معافی مانگتا ہوں۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’سبھی جگہ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ میں چڑچڑا ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
اس درمیان راجیو دھون نے عدالت سے اس ہفتہ کے درمیان بدھ کے روز اپنے لیے بریک کا مطالبہ کیا۔ دھون نے کہا کہ ان کے لیے لگاتار دلیلیں پیش کرنا مشکل ہوگا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے عدالت کو پریشانی ہوگی، اس لیے وہ چاہیں تو جمعہ کو بریک لے سکتے ہیں۔ دھون نے چیف جسٹس کی اس بات پر رضامندی ظاہر کی۔
آج راجیو دھون نے اپنی دلیلیں پیش کرتے ہوئے سب سے پہلے ہندو فریقین کی کچھ باتوں کو عدالت کے سامنے رکھا۔ انھوں نے کہا کہ ’’کون سا قانون آپ کو وراثت میں ملا ہے؟ ہم جس قانون کو مانتے ہیں وہ ’ویدک قانون‘ نہیں ہے۔ 1858 سے قانون کا نظام شروع ہو گیا۔‘‘ انھوں نے مزید سوال کیا کہ ’’میں اپنی بات شروع کرنا چاہوں گا اس سے کہ عدالت میں کون سا قانون نافذ ہونا چاہیے۔ کیا یہاں وید اور اسکند پران نافذ ہوگا۔‘‘ راجیو دھون نے ہندو فریق کے وکلاء کے ذریعہ ’پریکرما‘ کا تذکرہ کیے جانے کی بات بھی عدالت کے سامنے رکھی اور کہا کہ ’’پریکرما عبادت کی ایک شکل ہے، یہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔‘‘
راجیو دھون نے ہندو فریق کے وکلاء کے ذریعہ حملوں تاریخی حملوں کی بات رکھے جانے سے متعلق اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’وہ اِس حملے اور اُس حملے کی بات کرتے ہیں۔ میں ان سب میں نہیں جانا چاہتا۔ کیا آرین نے حملہ کیا تھا۔‘‘ انھوں نے کہا کہ کسی نے بھی کیس سے جڑے ضروری ثبوت اور دلائل پیش نہیں کیے سوائے رنجیت کمار کے۔